شکر ہے ہمارا اسلحے کا ذخیرہ محفوظ ہے

227

جمعہ 13نومبر: کشمیر میں وادی ٔ نیلم اور ایل او سی کے قریب مختلف سیکٹرز میں بھارت کی شدید گولہ باری۔ وادی ٔ نیلم لہو لہو ہے مگر کشمیر کو شہ رگ قرار دینے والے اس صورت حال پر خاموش ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک گولہ باری شروع ہوگئی۔ ایک ساتھ دس دس گولے گررہے تھے۔ گولہ باری اتنی شدید تھی کہ ہم سمجھے بھارت اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی ہے۔ پورا علاقہ دھماکوں سے لرزرہا تھا۔ ہر طرف دھواں اور جلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ ایک پورا محلہ آگ کی لپیٹ میں تھا۔ وادی ٔ نیلم کے ایک گائوں تجبیا میں بارہ مکانات جل کر خاکستر ہوگئے۔ برف باری اور بارش کے باوجود علاقے میں جلنے کی بو پھیلی تھی۔ بھارتی فوج کی شہری آبادی پر فائرنگ اور مارٹر گولوں کی بمباری سے پانچ شہری شہید اور پانچ فوجیوں سمیت سترہ افراد زخمی ہیں جن میں سے ایک بچہ آنکھ ضائع ہونے پر بروقت علاج نہ ہونے کی باعث چل بسا۔
یہ ایک المناک صورتحال ہے۔ مگر اس المیہ کا ایک خوش کن پہلو بھی ہے۔ بھارتی فوجوں نے سیکڑوں کی تعداد میں گولے داغ کر اور لا تعداد گولیاں فائر کرکے اپنی معیشت کو نقصان پہنچایا لیکن ہماری طرف سے ایسی بیوقوفی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ ہماری طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا گیا۔ صد شکر ہمارا اسلحے کا ذخیرہ محفوظ رہا۔ ہمارا ایٹمی اسلحہ، اسٹرٹیجک میزائل، ٹینک، جہاز اور گولہ بارود سب امن اور شا نتی کے گیت گا رہے ہیں۔ سلام ہے پاکستان کے ذہین، قابل، محنتی اور جذبہ ایمانی سے لبریز سائنس دانوں اور انجینئروں کو جنہوں نے دن رات کی کاوشوں سے یہ اسلحہ تیار کیا۔ یہ اسلحہ نہ ہوتا تو ہماری افواج کس کی حفاظت کرتیں۔ ایک مرتبہ پھر صد شکر کہ ہمارا اسلحہ محفوظ ہاتھوں میںہے۔ یہ حکمت عملی بڑی دور اندیشی پر مبنی ہے۔
سمجھا کریں! ہماری معیشت جنگ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ جنگ آپشن نہیں ہے۔ جوابی کارروائی کی صورت میں ہم عالمی برادری کو کیا منہ دکھاتے، جس کے لبوں پر ہماری امن پسندی کے ترانے ہر دم رواں رہتے ہیں۔ ہم جنوبی ایشیا کے ایک امن پسند ملک ہیں۔ جنوبی ایشیا کا امن ہماری ذمے داری ہے۔ جنگ بڑی ہولناک چیز ہے۔ جنگ کیا ہوتی ہے افغانستان کے لوگوں سے پوچھیں۔ ہمیں سرحد کے آرپار امن، محبت اور دوستی کے گیت گاتے رہنا ہے۔ بھارت کیا کررہا ہے، ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی برادری دونوں ممالک کو دیکھ رہی ہے۔ ہم بھارت کی اس جارحیت کا مقدمہ لے کر عالمی برادری کے پاس جائیں گے۔ تب دیکھیے گا عالمی برادری بھارت کو دن میں تارے دکھادے گی۔
اس مرتبہ بھی ہماری حکومت نے کنٹرول لائن پر بھارت کی ہزاروں خلاف ورزیوں کے جواب میں احتجاجی مراسلہ دینے کی روایت کو برقرار رکھا۔ لگتا ہے بھارت کی آدھی معیشت تو پاکستان کے احتجاجی مراسلوں کی ردی بیچ کرچل رہی ہوگی۔ ہمیں دشمن کی معیشت کو اس طرح مضبوط کرنے کے بجائے آئندہ زبانی کلامی گلے شکووں پر تکیہ کرنا چاہیے۔ بہر حال اس دفعہ احتجاجی مراسلے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بے خبرعالمی برادری کے سامنے بھارت کی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت بھی پیش کردیے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوجی ترجمان جنرل بابر افتخار نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت مل گئے ہیں۔ پریس کانفرنس میں ایک حیرت ناک انکشاف یہ بھی کیا گیا کہ ’’بھارت نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے‘‘۔ (اس منصوبے کو ناکام بنانا چونکہ عالمی برادری کی ذمے داری ہے اس لیے) پا کستان عالمی برادری کو وقتاً فوقتاً اس منصوبے سے آگاہ کرتا رہے گا۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے میں مزید خاموش رہنا نہ پاکستان اور نہ ہی جنوبی ایشیا کے مفاد میں ہے (اس مجبوری کی بنا پر ہم خاموشی توڑ رہے ہیں ورنہ آج بھی ہم خاموش ہی رہتے ہیں) اس موقع پر پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھارتی اداروں کے ملوث ہونے، کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت، کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی تربیت اور اسلحہ وگولہ بارود کی فراہمی کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں ٹارگٹس کی نشاندہی اور رقوم کی ترسیل کے شواہد بھی پیش کیے گئے۔ وزیرخارجہ نے عالمی برادری پر زوردیا کہ (ہمارا کردار یہیں تک محدود تھا۔ ہم نے اپنا کام کردیا اب) بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں قوم کو خوش خبری سنائی کہ پاکستان نے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت دنیا کو دے دیے ہیں اس کے بعد دنیا خاموش یا لاتعلق نہیں رہ سکتی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں کہا ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 19ہزار ایک سو تیس دہشت گرد حملے برداشت کیے اور ان کا مقابلہ کیا، جن سے 83ہزار افراد زخمی اور 32ہزار شہید ہوئے۔ 23ہزار سویلین 9ہزار کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان اور افسر شہید ہوئے۔ اگر مالی نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو 126ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا جب کہ معاشی مواقع کے نقصانات کا کوئی اندازہ نہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ہماری جنگ بھی نہیں تھی ہم نے اتنا عظیم جانی اور مالی نقصان برداشت کرلیا لیکن آج جب کہ بھارتی درندے روزانہ ہماری مائوں بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کررہے ہیں، ہمارے بھائی، بیٹوں اور بزرگوں کو بے دردی سے شہید اور زخمی کررہے ہیں ہم امن کے ترانے گارہے ہیں۔ کیوں۔ ہزاروں کشمیری بھارتی ٹارچر
سیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنے گل سڑ رہے ہیں۔ کیا وہ ہمارے بھائی، بزرگ اور اولادیں نہیں ہیں ؟، کیاوہ ہمارے کلمہ گو بھائی نہیں ہیں؟ کیا وہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نام پر قربانیاں نہیں دے رہے ہیں؟ کیا پورا کشمیر پاکستان کا علاقہ نہیں ہے؟ پھر یہ خاموشی کیوں؟ کشمیر میں بچیاںہاتھوں میں پتھر لیے، بچے غلیل پکڑے بھارتی فوجوں کے مقابل ہیں لیکن ہماری تربیت یافتہ، کیل کانٹے سے لیس افواج اس تمام صورتحال پر آنکھیں بند کیے بیرکوں میں بند ہیں۔ کیا یہ رویہ مسلم افواج کی تاریخ سے کوئی مماثلت رکھتا ہے جب مسلمانوں کی افواج چند مسلم خواتین پر ہونے والے ظلم پر بھی سود وزیاں سے بے نیاز طویل مسافتیں طے کرکے ان کی مدد کو پہنچتی تھیں؟ مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا، ایک برس سے زائد ہورہا ہے اہل کشمیر اپنے گھروں میں قید ہیں، ہم گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے کر مودی کو جواز فراہم کررہے ہیں۔
آج بھارت پہلے کی طرح مضبوط، متحد اور یکجا نہیں ہے۔ وہ لداخ میں چین کے ساتھ الجھا ہوا ہے۔ کورونا کے بحران نے اس کی معیشت کو برباد کر ڈالا ہے۔ کشمیری عوام سڑکوں پر بھارت سے آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں، بھارتی افواج قومی جذبے اور بہتر اسلحے سے محروم ہیں اور خودکشیاں کررہی ہیں۔ کشمیر کے کلمہ گو مسلمانوں کو بھارت کے چنگل سے چھڑوانے کا موقع پھر کب آئے گا؟ ہم جنگ سے اتنا ڈرنے کیوں لگے ہیں، جہاد ہماری زندگی کے مقاصد سے دور کیوں ہوتا جارہا ہے۔ دفاع کو مسلسل اور مستقل پالیسی بنا لینا کوئی جنگی حکمت عملی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موقع پر کہا جاتا تھا کہ ’’ہم امریکا کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ابتدا سے تاحال ہماری جنگی تیاریاں اور افواج کی تربیت بھارت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے‘‘ لیکن آج بھارت کے مقابل بھی مقبوضہ کشمیر ہو یا پاکستانی علاقے پسپائی ہمارا شعار بن چکی ہے۔ ہمارے حکمران آخر کس کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں؟ یہ حکمران کس کے ایجنٹ ہیں۔