پندرہ سال پہلے امریکی محکمہ دفاع نے افواج میں جنسی زیادتیوں اور عصمت دری سے نمٹنے کے لئے صفر رواداری (Zero Telorance) پالیسی کا قانون بنایا تھا اور اس پر کئی ملین ڈالرز خرچ کیے جاچکے ہیں لیکن سب بےسود۔
سی بی ایس نیوز کے اینکر اور منیجنگ ایڈیٹر نورا او ڈونل اور سی بی ایس نیوز انویسٹی گیٹو یونٹ کی ڈیڑھ سالہ طویل تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ امریکی فوج کے اندر جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اور اس کی روک تھام کی ناکامیوں میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔
تحقیقات کے دوران سی بی ایس نیوز نے جنسی حملوں سے بچنے والی تقریباً درجنوں خاتون اہلکاروں اور اس کا شکار ہوکر خودکشی کرنے والی متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ بات چیت کی جن کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے جنسی زیادتی کے واقعات کی غلط سرکاری رپورٹس پیش کی ہیں۔
اسٹیو اور اسٹیسی برنھم بھی انہی والدین میں شامل ہیں جن کی بیٹی اپنے ساتھی اہلکاروں کی جانب سے ہراسگی اور ریپ کا نشانہ بنی اور حکام کی جانب سے مایوس کُن رویہ برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
والدین نے سی بی ایس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیٹی نیکول برنھم کو جنوبی کوریا میں امریکی فوجی کیمپ ‘کیسی’ میں تعینات کیا گیا اور دو ماہ کے اندر اندر، جون کے مہینے میں اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
اُس نے حکام سے اپنے ٹرانسفر کی بات کی لیکن اُس کے ٹرانسفر میں 82 دن لگے جبکہ دو ماہ بعد اسے دوبارہ درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ آخریہ کون سا ٹرانسفر تھا جس میں 82 دن لگے۔
والدین نے کہا کہ ویسے تو امریکہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر کسی ملک میں فوج اتار دیتا ہے لیکن ہماری بیٹی کے ٹرانسفر میں اُسے 82 دن لگے جو کہ ایک ناقابلِ قبول بات ہے۔
روز روز کی جنسی ہراسگی کا سامنا کرنے کے بعد نیکول خودکشی کے اقدام کے بارے میں سوچنے لگی جس سے اُس کے انچارج بھی واقف تھے تاہم انہوں نے حکام کو اس حوالے سے رپورٹ فراہم نہیں کی اور آخرکار ہماری بیٹی نے بیس کیمپ میں اپنے روم میں خودکشی کرلی۔