انتخابی نظام کی اصلاح پر عمل بھی ضروری ہے

224

وزیراعظم عمران خان نے ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ متعارف کرانے کا اعلان کیا اور انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے بھی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن اپوزیشن نے ان کے ایک روز قبل کے سیاسی جلسوں پر پابندی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے بڑا مثبت اعلان کیا ہے ان کا عزم ہے کہ اگلا الیکشن ایسا ہو کہ ہارنے والا اپنی شکست تسلیم کر لے۔ ویسے پاکستانی الیکشن میں صرف ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اپوزیشن نے شکست تسلیم نہیں کی اور حکومت ہٹا دی گئی لیکن حکومت ہٹنے اور مارشل لا لگنے کے بعد پتا چلا کہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے پیچھے بھی کوئی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے لوگوں کو 11 برس تک یہ علم نہیں تھا کہ 1977ء میں انتخابات میں دھاندلی سے لے کر مارشل لا تک سب کچھ منصوبے کے تحت تھا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان نے تجویز دی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ لائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں جو سب سے آسان کام تھے وہ پورے نہیں کیے جا سکے تو الیکٹرانک ووٹنگ کیسے کارگر ہوگی۔ انتخابی فہرستیں الیکٹرانک، بیلٹ پیپرز الیکٹرانک، آر ٹی ایس الیکٹرانک، لیکن نتائج دو نمبر آتے ہیں۔ جس الیکٹرانک ووٹنگ کی بات کی جا رہی ہے وہ امریکا جیسے ملک میں بھی سو فیصد کامیاب نہیں ہے لیکن پھر بھی اس قسم کی بات پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے آئی ہے اور کسی فوری دبائو کے بغیر آئی ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وزیراعظم کی دعوت کو مشروط طور پر ہی قبول کر لے کہ ہم اپنے جلسے جلوس جاری رکھیں گے لیکن انتخابی اصلاحات کا منصوبہ ضرور روبہ عمل لائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے پہلی مرتبہ پی ٹی آئی پر اعتماد کیا ہے۔ دراصل پی ٹی آئی پر تو پورے ملک میں پہلی مرتبہ کسی نے اعتماد کیا تھا۔ وہ اس کے اعتماد پر کس حد تک پوری اتری اس کا اندازہ رفتہ رفتہ ہو رہا ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کو گھیرا جا رہا ہے۔ اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنے اوپر اعتماد کرنے والوں کے اعتماد پر کسی حد تک پوری اتری لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ عوام کے اعتماد پر بالکل پوری نہیں اتری، آدھی بھی نہیں اتری۔ پھر بھی وزیراعظم نے جو اعلانات کیے ہیں ایک مرتبہ یہ کام ہو جائیں تو اچھا ہے۔ انتخابی نظام ایسا ہے کہ اس نظام میں کوئی بھی دو نمبر آدمی نقب لگا کر بلکہ بڑا شگاف ڈال کر اسمبلی کی رکنیت سے لے کر وزارت عظمیٰ تک کسی بھی منصب پر پہنچ جاتا ہے۔ بلکہ منصب صدارت بھی پانچ برس تک اس نظام کی خرابی کی وجہ سے پامال ہوا۔ پورے پاکستان کا مستند کرپٹ فرد صدر پاکستان کے منصب تک پہنچ گیا۔ ایک مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ اگر اپوزیشن انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے مذاکرات پر آمادہ بھی ہو جائے اور حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات سے جو فیصلہ برآمد ہوگا اس پر عمل کون کرائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی باتیں تو جنرل ضیا الحق، بے نظیر، نواز شریف بھی کرتے رہے اور اب عمران خان بھی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وزارت بھی بن گئی اور وزیر بھی۔ کام ہوا یا نہیں وزیر خوب بن گئے لیکن سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں ملا۔ پاکستان کی جیلوں میں قید لوگ ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن ملک کو کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ سالانہ دینے والے ووٹ ڈالنے کے مستحق نہیں ہیں۔ آج کل تو ہر چیز الیکٹرانک ہے۔ بڑی آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ جس نے دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر لی ہے اس کو ووٹ کا حق نہ دیں اور جو صرف پاکستانی ہے اسے تو ووٹ کا حق دے دیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے بھی اونچے طبقے کے ہیں اور جن لوگوں نے بیرون ملک شہریت حاصل کر لی ہے اس میں سے بیشتر خوشحال ہیں اور دہری شہریت کے حامل بھی ہیں اس لیے شاید دہری شہریت کی پابندی نہ ہو سکے۔ لیکن اس جانب قدم تو بڑھایا جائے اور آج کل جو اپوزیشن ہے پاکستانی انتخابی نظام کی خرابی کے سبب کسی بھی وقت وہ حکومت میں آسکتی ہے پھر کیا وہ انتخابی نظام کی اصلاح میں دلچسپی لے گی۔ دراصل عوام اور سیاسی جماعتوں میں بھی ایک بڑے مکالمے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو کچھ کہتی ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ان کے خیالات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انتخابی دھاندلی روکنے کے اقدامات پر کام کیوں نہیں کیا جاتا۔ الیکشن کمیشن کو تابع بنا کر کیوں رکھا جاتا ہے۔ انتخابی قوانین کی تیاری میں بدنیتی کیوں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ قانون خاموشی سے ایک ترمیم میں ڈال دیا گیا کہ جس امیدوار کی شکست دس ہزار ووٹوں کے مارجن سے زیادہ کی ہو وہ الیکشن کمیشن سے دھاندلی کی شکایت نہیں کر سکتا۔ ری کائونٹنگ نہیں کرا سکتا۔ ریکارڈ نہیں نکلوا سکتا۔ جب اعتراض کیا گیا تو پتا چلا کہ سابقہ اصلاح کے دوران یہ اصلاح بھی کر دی گئی تھی۔ دس ہزار ووٹ اِدھر اُدھر کرنا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان ایسی کوئی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو قوم کا جواب یہی ہوگا کہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ انتخابی نظام ہو یا انتظامی معاملات ان سب کی اصلاح کے لیے اصلاح کرنے والے ایماندار ہونے چاہییں اور پاکستان میں ایسے لوگوں کا فقدان ہے بلکہ ایوان اقتدار میں تو یہ لوگ ملنے کے نہیں کمیاب ہیں لہٰذا کسی قسم کی اصلاح سے قبل اصلاح کرنے کے مقام تک ایسے لوگوں کو پہنچانے کا اہتمام کیا جائے جو ایماندار ہوں۔ ورنہ کوئی نظام محفوظ تصور نہیں ہوگا۔