ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے پسپائی

200

۲۲ سال کی جدوجہد کے بعد پہلی بار بر سر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کو دو بڑی سیاسی جماعتوں کی اپوزیشن کی مزاہمت کا سامنا ہے یہ وہ منظم اپوزیشن ہے جو ۳۵ برس تک ایک دوسرے کے مد مقابل رہی ہیں۔ اس امر میں کوئی دو آراء نہیں کہ تحریک انصاف اپنے اقتدار کے ابتدائی دو سال میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ مہنگائی کے سونامی نے غریب عوام کی سانسیں بند کر دی ہیں جس کی بحالی تبدیلی سر کار کی اہم ذمے داری ہے۔ پچھلے دو سال میں یہ پہلی بار دیکھا گیا کہ ۳۵ سال تک جو لوگ اس ملک کے اقتدار پر براجمان رہے وہ آج احتساب کے شکنجے میں ہیں اس ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص آج سزا کے خوف سے ملک سے راہِ فرار اختیار کر گیا ہے احتساب کا خوف ایسا طاری ہوا ہے کہ کل کے سیاسی مخالف جو پیٹ پھاڑ کر قومی دولت نکالنے، سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعویٰ کرتے تھے آج وہ سب اپنی کرپشن بچانے کے لیے یکجا ہوگئے ہیں۔
اپوزیشن کا یہ بیانیہ کہ ووٹ کو عزت دو، غریب عوام کو ان کے بنیادی حقوق دو ہر صورت جائز مطالبہ ہے غریب عوام کو ان کے جائز حقوق دینا یا دلانا سیاستدانوں کے فرائض کا اہم ترین حصہ ہے مگر یہ حقوق آج اُن لوگوں کو کیوں یاد آرہے ہیں جو ۳۵ برس تک اپنے ناجائز اثاثے ملک وبیرون ملک بناتے رہے جن کے دور اقتدار میں آٹے میں نمک کے برابر اپنے پسندیدہ صوبوں شہروں کو ترقی دی گئی، جن کے دور اقتدار میں سندھ بلوچستان کے ساتھ سو تیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا۔ بد قسمتی کا عالم تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی جو سندھ پر برسوں سے بر سر اقتدار ہے اور کئی بار وفاق میں برسر اقتدار رہتے ہوئے بھی سندھ و بلوچستان کی محرومیوں کو دور کرنے میں ہر طرح سے ناکام رہی۔ برسر اقتدار آنے والی ہر جماعت کا ہدف پنجاب رہا ہے۔ سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر قوم کو تعصب میں تقسیم کیا ہے جس کا نقصان سندھ اور بلوچستان کو زیادہ اُٹھانا پڑا ہے۔ کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ پاکستان کے وہ دو صوبے جن کی بنیاد پر پاکستان کی معیشت قائم ہے یا ان صوبوں کی کمائی سے دوسرے صوبوں کو چند ترقیاتی منصوبے فراہم کیے جاتے ہیں بلوچستان جہاں معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں جہاں سے پورے ملک کو گیس فراہم کی جاتی ہے اسی طرح کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے، ملکی ترقی وخوشحالی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ماضی میں بھی اور آج بھی تعصب کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یہ اس ملک و قوم کی بد بختی رہی کہ سیاستدان مفادات کے حصول کی خاطر کبھی غریب عوام کو تو کبھی ریاستی اداروں کو استعمال کرنے کی مذموم سازش کرتے رہے ہیں پچھلے ماہ شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریک کل تک آئین کی بالا دستی اور ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کے خاتمے کا راگ الاپ رہی تھی، سلامتی اور انصاف کے منصب پر فائز شخصیات کو للکارا جارہا تھا لندن سے حکم جاری کیا جارہا تھا کہ جو بھی پس پردہ ریاستی اداروں سے ملاقات کا مرتکب ٹھیرے گا اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ میاں صاحب کے حکم کی نفی ان کی اپنی کی جانشین بیٹی کر رہی ہیں کہ مریم صفدر کا نیا یوٹرن سامنے آیا کہ فوج پہلے موجودہ حکومت کو رخصت کرے تو پھر بات چیت ہوسکتی ہے اسی طرح جمہوریت کے علمبردار غیر آئینی اقدام کے سخت مخالف بلاول زرداری بھی آج مریم صفدر کی زبان بولنے پر کیوں مجبور ہیںکل تک پی ڈی ایم کا بیانیہ غیر آئینی اقدامات کے خلاف تھا آج پی ڈی ایم ریاستی اداروں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہی ہے۔
کیا ووٹ کی عزت کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے جو اب اُن ریاستی اداروں سے مدد مانگی جارہی ہے جن کو ملک اور پوری دنیا کے سامنے اپنے جلسوں میں متنازع بنایا گیا مریم صفدر میاں صاحب کے بیانیے کی نفی کرنے اور غیر آئینی کوشش کرنے کی مرتکب ہوکر ایک بار پھر ریاستی اداروں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہی ہیں جس کو پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں مکمل سپورٹ کر رہی ہیں ساتھ ہی مریم نواز اپنا سیاسی کیریر محفوظ رکھنے کے لیے اداروں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہی ہیں۔ کیا یہ درست کہ جب جب اپنے مفادات کے لیے اداروں کی ضرورت محسوس کی جائے تو ان سے خفیہ ملاقات کی جائے اور جب ان خفیہ ملاقاتوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہ ملے تو ان کو متنازع بنایا جائے۔
آخر کب تک سیاسی جماعتیں اداروں کی آڑ میں اقتدار پر براجمان رہنے کی روایت کو زندہ رکھیں گی اگر ایسا کیا جاتا رہا تو پاکستان میں کبھی آزاد جمہوریت جنم نہیں لے سکے گی جس کا نقصان ملک و قوم کو اور اس قومی ریاستی اداروں کو اُٹھانا پڑتا رہے گا۔