کراچی(رپورٹ:حماد حسین)چین میں ایک ہی زبان اور کلچر ہے۔زبان ایک ہونے سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا آسان ہو جاتا ہے۔چین نے سینٹرل ایشیا تک ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کے ذریعے اپنے اقتصادی سلطنت کو وسعت دینا شروع کر دیا ہے۔چین جنگوں کے ذریعے ممالک کو فتح نہیں کرتا بلکہ اپنی نرم طاقت کے ذریعے ملکوں کو معاشی غلام بناتا ہے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم ،وفاقی اردو یونیورسٹی کے انچارج شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر ممنون احمد خان اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر سید شجاعت حسین نے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم کا کہنا تھا کہ چین کا بطور عالمی قوت کے طور ر ابھرنے کی بہت سی وجوہات ہے جن میں سے جو میری نظر میں
وہ یہ ہے کہ جوزف نائے کی تھیوری ہے کہ ایک نرم طاقت ،سخت طاقت اور اسمارٹ پاور ہوتی ہے۔نرم طاقت کا مطلب ہے کہ اپنی فن و ثقافت اور امن پسندملک کے طور پر اپنی شناخت لوگوں تک پہنچائی۔سخت طاقت کا مطلب ہے اپنی فوجی طاقت کے ذریعے آگے بڑھیں۔ اسمارٹ پاور مجموعہ ہے نرم طاقت اور سخت طاقت کا۔چین نے پوری دنیا اسمارٹ پاور کے ذریعے کام کیا ہے ان کو جس جگہ سخت طاقت دکھانی تھی وہاںوہ دکھائی جس کی واضح مثال بھارت سے لداخ کامعاملہ ہے۔ساوتھ ایشیا اور افریقا میں چین کی جانب سے جو معاشی تعاون پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان کی نرم طاقت کی شکل ہے۔امریکا ان کی فوجی قوت اور فوجی ساز وسامان میں ترقی کے بجا ئے ان کی نت نئے ترقی اور ٹیکنالوجیز سے پریشان ہے۔چین نے دنیا بھر کے ممالک کو مختلف طریقوں سے قرضے دیے ہیں۔کمیو نسٹ پارٹی کی حکومت 1949ء سے جاری ہے اور ایک پارٹی کے باعث پالیسی کا تسلسل بھی ہے۔چینی رہنمائو ں نے ایک طرف چین کی ترقی کی طرف توجہ دی تو دوسری طرف چین کو جنگوں سے بھی دور بھی رکھا۔چین طاقتور ہے مگر کسی سے لڑنا نہیں چاہتابلکہ اپنے ساتھ قریبی ملکوں کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے انچارج شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر ممنون احمد خان کا کہنا تھا کہ چنگ خاندان نے 2 ہزار سال تک چین پر حکومت کی۔ 1911ء کے انقلاب چین کے بعد بادشاہی دور ختم ہوگیااور چین میں جمہوری دور کا آغاز ہوا۔چین کا کمیونسٹ انقلاب 1949ء میں آیااور یکم اکتوبر 1949ء کو عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا اور ماؤزے تنگ نے اقتدار سنبھالا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے 2 سال بعد قائم ہونے والے ملک چین نے ترقی کی منازل کیسے طے کرلیں؟ اس کی بنیادی وجہ چین کا نظریہ سوشلزم ہے۔ 1976ء میں ماؤزے تنگ کے انتقال کے بعد چین کے سخت نظریہ سوشلزم میں نرمی آتی گئی۔ آخر کار ڈینگ سیاو پنگ نے حکومت سنبھالی اور سوشلزم کے نظریہ کے تحت اور غیر طبقاتی نظام اور لوگوں کی حکمرانی کے ذریعے انہوں نے 3 عملی اقدامات سامنے پیش کیے۔جن میں قومی معیشت کو نئے سرے سے منظم کرنا۔ملک کو بیرونی دنیا کے لیے کھول دینا۔معیشت کو نئے طرز پر استوار کرنا ہے۔پہلے اور تیسرے اقدامات ایک جیسے لگ رہے ہیںمگر پہلے اقدام کا مقصد اداریاتی ڈھانچے میں تبدیلیوں سے ہے جبکہ تیسرے اقدام کا ہدف عملی تبدیلیاں ہیں جس کے باعث پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہو۔ چین میں کمیونسٹ نظریات کے برعکس مارکیٹ اکنامی کو اہمیت دی گئی اور یہ سوچ قائم کی کہ عوامی خوشحالی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک ساتھ خوشحالی ہو بلکہ اس کا مطلب ہے بعض افراد، طبقے اور خطے دوسروں سے قبل بھی خوشحال ہو سکتے ہیں۔چین نے اقتصادی اور سیاسی نظام دونوں میں تبدیلیاں کیں۔بلدیاتی الیکشن میں صرف پارٹی ممبر کے علاوہ آزاد امیدواروں کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔اب چینی قیادت کا کوئی سوشلسٹ نظریہ نہیں ہے بلکہ ان کا واحد نظریہ عملیت پسندی ہے۔چین میں مرکزی منصوبہ بندی کے نظام کو محدود کردیا اورطلب و رسد اور مارکیٹ فورسز کو کام کرنے کا موقع دیا جارہاہے- اس عمل کو”مارکیٹ سوشلزم”کا نام دیا گیا ہے اور چین نے بیرونی دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے سستی لیبر کی وجہ سے اپنی صنعتیں چین میں قائم کیں۔ چین نے مغربی دنیا سے اپنے فنی اور ثقافتی روابط کو فروغ دیا۔ اب چین کے پاس اتنی دولت ہے کہ اس نے چین سے سینٹرل ایشیا تک ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کے ذریعے اپنے اقتصادی سلطنت کو وسعت دینا شروع کر دیا ہے۔ چین چھوٹے اور معاشی طور پر کمزور ممالک کو قرضے فراہم کرتا ہے اور وقت پر قرض کی عدم واپسی پر کولمبو سری لنکا کی بندرگاہ پر قبضہ بھی کرچکا ہے اور ہمیں بھی 2022 ء میں چین کو سالانہ 2 ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے اور نہ کرنے کی صورت میں گوادر پورٹ بھی چین کے قبضے میں جاسکتی ہے۔چین جنگوں کے ذریعے ملکوں کو فتح نہیں کرتا بلکہ اپنی نرم طاقت کے ذریعے ملکوں کو معاشی غلام بناتا ہے۔ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر سید شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ چین ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھرنے والا ملک ہے۔دراصل ملک و قوم کی ترقی میں اتحاد کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور وہی قومیں ترقی کرتی ہے جن میں اتحاد ہو۔چین میں ایک ہی زبان اور کلچر ہے۔جب زبان ایک ہو تو تو بہت آسان ہوتا ہے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا۔جس کی بڑی مثالیں چین اور جاپان ہیں۔ جبکہ ایرانی قوم کا متحد رہنا اور ڈٹ کر امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا بھی ایک ذبان اور ایک کلچر کے سبب ممکن ہوا۔تیسری بات تحقیق اور مارکٹینگ ہے۔ جس پر چین نے بہت زیادہ توجہ دی ہے لیکن یہ سب کچھ چینی لیڈر شپ کی اعلیٰ قیادت سے ہی ممکن ہوسکا جس میں انقلابی رہنما ماوزے تنگ،چوائن لاء اور بعد میں آنے والی لیڈر شپ اور بالخصوص شی جن پنگ کی دھیمی مگر مدبرانہ سوچ کا بڑا دخل ہے۔