جمہوریت کی موت

152

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ مریم نواز نے فوج کو مذاکرات کا عندیہ دے کر اپنے بیانیے کی نفی کی ہے۔ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ محترمہ نے اپنے والد محترم کے بیانیے کی تکذیب کی ہے۔ فوج یا کسی دوسرے با اثر ادارے کو مذاکرات کی پیش کش کرنا سیاست میں دخل انداز ہونے کی دعوت دینے کے متراد ف ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ پر براجمان کرنے کے لیے مافیا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ایوان اقتدار کو خریدا گیا ہے۔ اور اب خریدار اپنی سرمایہ کاری کا منافع سود در سود سمیٹ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ عمران خان کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ وہ متعدد بار اس کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ مگر اب سیاسی موسم بدل رہا ہے۔ حالات کی رُت کروٹیں لے رہی ہے۔ ہوائیں اپنا رخ تبدیل کر چکی ہیں۔ گویا حقیقی تبدیلی آنے والی ہے۔ سو، حکومت کو اس دن سے ڈرنا چاہیے جب جھونپڑیوں اور ٹوٹے پھوٹے خستہ حال مکانوں کے مکین عالی شان محلوں اور جاذب نظر بنگلوں کا رخ کریں گے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف جس طرح بھی حکومت میں آئی ہے اسے اپنی مدت پوری کرنے کا حق ہے۔ مگر تحریک انصاف نے اداروں کو متنازع بنا کر جو ناقابل تلافی عمل کیا ہے۔ وہ قابل تحسین نہیں ہو سکتا۔ ہر ادارے کو اپنی حد میں رہنا چاہیے تاکہ جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے۔
جمہوریت سے فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست دان صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ کیونکہ سیاستدانوں کی لڑائی میں جمہوریت کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ الیکشن میں ہار جیت لازمی امر ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہارنے والا ماتم کناں ہو کر سینہ کوبی کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور جیتنے والا بھنگڑا ڈالنا اور جشن منانا ضروری سمجھتا ہے۔ مگر عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ عوام کے مقدر میں رونا دھونا ہی لکھا ہے۔ اس سفاکانہ عمل نے الیکشن کو بھی نورا کشتی کے زمرے میں شامل کر دیا ہے۔ انتخابی عمل سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ وہ راولپنڈی سے آنے والی ٹھنڈی ہوائوں کا انتظار کرنے لگے ہیں اور برملا اس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ فوج مارشل لا لگا کر کسی غلطی یا ہوس اقتدار کی مرتکب نہیں ہوتی۔ اصل غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ حکومتی عمل میں سیاست دانوں کو بھی شامل کر لیتی ہے۔ جو اس کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
مقتدر حلقوں نے پاکستان کو انہونستان بنا دیا ہے۔ ایسی انہونی جو پہلے کبھی وقوع پزیر نہیں ہوئی۔ سیاست دان جھونپڑی نشینوں اور خستہ حال مکانوں کا رخ نہیں کریں گے۔ بلکہ عوام عالی شان محلوں کا گھرائو کریں گے۔ اور انہیں عشرت کدوں سے نکال کر سڑکوں پر لے آئیں گے۔ عوام اس حقیقت کا بھی ادراک کرنے لگے ہیں کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف نورا کشتی لڑتی ہیں۔ ان کا اختلاف جمہوریت یا عوام کی خوشحالی کے لیے نہیں ہوتا۔ سرمایہ کاری کا زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی کا یہ ارشاد قابل توجہ ہے کہ انتخابی عمل کو صاف شفاف ہونا جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے۔ وراثت در وراثت کے عمل نے جمہوریت کو آمریت سے بھی زیادہ مکروہ اور بھیانک بنا دیا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا، بیوی کے بعد شوہر جمہوریت کو خانہ دار بنانے کے مترادف ہے۔
تحریک انصاف کی پیش رو حکومتیں جیسی بھی تھیں مگر حکمرانی میں جمہوریت کا تڑکہ لگائے رکھتی تھیں۔ عمران خان مودی کو گلے لگانے کے لیے تو بے تاب رہتے ہیں مگر حزب اختلاف سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن سے ہاتھ ملایا تو ان کی حکومت کورونا وائرس کا شکار ہو جائے گی۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے حزب اختلاف سے مشاورت بہت ضروری ہے۔ جمہوریت کی گاڑی ون ویلنگ کے شوق کی بھینٹ نہیں چڑھائی جا سکتی۔ لگتا ہے کہ خان صاحب سن بلوغت سے بہت دور ہیں۔ اس لیے ون ویلنگ کے شوق سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بہت کوشش کی مگر انہیں حکومت کہیں دکھائی نہ دی۔ حتٰی کہ موصوف نے دوربین بھی لگائی مگر حکومت کہیں دکھائی نہ دی۔ خان صاحب نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے انتہائی دلکش وعدے کیے تھے مگر کوئی بھی وعدہ وفا نہ ہوا۔ نہ کوئی وعدہ تکمیل سے ہمکنار ہو سکا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب نے عوام کی زندگی کو عذاب بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ مگر حکمرانوں نے اسے بھی آئین پاکستان بنا دیا ہے۔ پہلے عام آدمی انصاف کے لیے در بدر بھٹکتا تھا۔ اب تو جج صاحبان بھی انصاف مانگ رہے ہیں۔ کسی ستم ظریف نے کیا خوب کہا ہے انصاف اسے ملتا ہے جس کی مانگ خوش رنگ ہو۔ جاذب نظر ہو۔ انصاف کے لیے بھٹکنے والا بھٹکتے بھٹکتے کسی با اختیار شخصیت سے جا ملتا ہے۔ تو انصاف کی دیوی کو اس گو د میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں گود کے بغیر کوئی کام نہیں ہو تا۔ آپ کا کیا خیال ہے۔۔؟