اسلامی لٹریچر میں توکل علی اللہ کی تعریف کئی طرح سے کی گئی ہے۔ اللہ پر بھروسا، اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کردینا، مخلوق کی جانب سے پہنچنے والی تکلیف یا مایوسی کو اہمیت نہ دینا، اللہ کی مرضی پر راضی رہنا وغیرہ کچھ اہم تعریفیں ہیں۔ ہمارے خیال میں سب سے جامع تعریف وہ ہے جو مشہور مورخ و مفسر، علامہ ابن جریرؒ نے کی ہے: ’’تمام معاملات میں اللہ پر بھروسا اور اعتماد اور تمام تر تدبیرو کوشش کرلینے کے بعد سارا معاملہ اللہ کے سپرد کرنا‘‘۔ (شرح البخاری، لابن بطال، مکتبہ الرشد، الریاض، ج 9 ص 408) اس تعریف کی رو سے تدبیر وسعی بھی توکل کا حصہ قرار پاتی ہے۔
قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر اہل ایمان کو اسباب کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ جہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ: ’’اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اْس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے‘‘۔ (الطلاق : 3) وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ’’پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔ (جمعہ:10) اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ کیا گیا لیکن ساتھ میں ہر جگہ کوشش و جدوجہد کا حکم بھی دیا گیا بلکہ جدوجہد کے لیے ممکنہ مادی اسباب و وسائل حاصل کرنے اور انھیں تیار رکھنے کا بھی بہت واضح حکم دیا گیا ہے: ’’اور جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اْن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو‘‘۔ (انفال 60) جہاں تک امت کی اجتماعی زندگی کا تعلق ہے، یہ بات قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اسی وقت بدلتا ہے جب وہ خود تبدیلی کے لیے کوشش کرے‘‘۔ (رعد: 11)
قرآن مجید نے اولوالعزم انبیا کے حوالے سے جہاں یہ بات کہی ہے کہ وہ اللہ پر بھرپور اعتماد کرتے تھے وہیں متعدد جگہ یہ اشارے بھی دیے ہیں کہ وہ اسباب اور دنیوی ومادی تدابیر سے بھی غافل نہیں رہتے تھے۔ یعقوب علیہ السلام کے سامنے جب یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب بیان کیا تو انھوں نے فوراً کہا: ’’بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے‘‘۔ (یوسف: 5) اس طرح وقت کے پیغمبر نے اپنے بیٹے کو حفاظت کے لیے احتیاطی تدبیر کی تلقین کی۔ جب بعد میں یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے یوسف علیہ السلام کی دعوت پر اپنے بھائی کو ساتھ لے جانے کے لیے اجازت طلب کی تو انھوں نے کہا: ’’میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اْس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسا کیا، اور جس کو بھی بھروسا کرنا ہو اسی پر کرے‘‘۔ (یوسف: 67) اللہ کے اس برگزیدہ نبی کی اس نصیحت میں توکل کے فلسفے کا خلاصہ موجود ہے۔ پہلے ممکنہ انسانی تدبیر کی طرف اشارہ ہے پھر اللہ پر بھروسے کا اعلان۔ قحط سالی سے بچنے کے لیے یوسف علیہ السلام نے جو پلاننگ کی اور مادّی تدابیر اختیار کیں، قرآن میں اس کی تفصیل بھی موجود ہے۔ خود رسول اللہؐ نے اپنی جدوجہد کے ہر مرحلے میں بہترین تدبیریں اختیار کیں۔ معاہدے کیے، جنگیں لڑیں، ہجرت کی، ہجرت کو جاتے ہوئے غار میں پناہ لی، حلیف بنائے، شرپسندوں کی سرکوبی کی، غرض یہ کہ اس عالم اسباب میں کامیابی وحصول مقصد کے جو راستے اور تدابیر موجود ہیں، ان سب کو بہترین طریقے سے بروئے کار لائے۔
توکل کے اس اسلامی فلسفے کی مزید وضاحت ایک مشہور حدیث سے ہوتی ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے دریافت کیا کہ میں اونٹنی کو رسی سے باندھوں پھر توکل کروں یا اسے یونہی چھوڑدوں اور توکل کروں؟ آپؐ نے جواب دیا کہ رسی سے باندھو پھر توکل کرو۔ (ترمذی)
اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل دراصل مندرجہ ذیل چار رویوں کے مجموعے کا نام ہے۔
1۔جو معاملہ بھی درپیش ہو، اس میں اپنے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرنا اور سارے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لانا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔
2۔کوشش کرتے ہوئے اللہ کی طاقت پر اوراس کے وعدوں پر بھرپور اعتماد کرنا، اس کی پشت پناہی اور نتیجتاً اپنی قوت و صلاحیت میں بے پناہ اضافہ محسوس کرنا اور خدا اعتمادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ اپنے کاموں کو انجام دینا۔
3۔اپنے بس میں جو کچھ ہے وہ کر گزرنے کے بعد اللہ سے بہتر امید رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا۔
4۔اگر توقع کے مطابق اچھا نتیجہ ظاہر ہو تو اللہ کا شکر ادا کرنا اور اگر توقع کے خلاف نتیجہ نکلے تب بھی یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے اس میں اس کی کوئی مصلحت ہوگی اور اس میں بھی ہمارے لیے خیر ہی ہوگا اور اس کی مرضی پر راضی رہنا۔ (البتہ ان غلطیوں اور کمیوں کا ضرور احتساب کرنا جو جدوجہد کرنے اور تدبیر کو اختیار کرنے میں سرزد ہوئیں) اور کوشش کے بعد جو باتیں ہماری کوشش کے دائرے کے باہر ہیں انھیں اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے چھوڑ دینا۔
ہم جب کسی قابل ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو پورے اطمینان سے خودکو اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ وہ نامعلوم کڑوی دوائیں کھلاتا ہے۔ تکلیف دہ انجکشن لگاتا ہے، کبھی (آپریشن کے لیے) پیٹ چیر دیتا ہے، کھوپڑی پھوڑ دیتا ہے، لیکن ہمیں اعتماد ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہا ہے، ہمارے فائدے کے لیے کررہا ہے۔ بعض اذیت ناک طریقہ ہائے علاج کے مصالح ہماری سمجھ سے باہر ہوتے ہیں لیکن ہمیں اْس کی شخصیت اور اس کے علم پر بھروسا ہوتا ہے۔ ہم اپنے جہل کو بھی جانتے ہیں اور اس کے علم سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ اس لیے وقتی اذیت کو بھی ہم بخوشی قبول کرلیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اذیت کا سبب ہماری سمجھ سے باہر ہو تب بھی جب یہ قابل ڈاکٹر اذیت دے رہا ہے تو کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ اس تکلیف کا ہماری صحت یابی میں کوئی ممکنہ رول لازماً ہوگا۔
اللہ تعالیٰ پر ہمارا اس سے کہیں زیادہ اعتماد ہونا چاہیے۔ آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کے سلسلے میں بھی یہ یقین ہونا چاہیے کہ اگر ہم نے کوشش کا حق ادا کردیا تو ان شاء اللہ یہ مشکلات بھی ہمارے لیے بالآخر کامیابی کے راستے کھولنے کا ذریعہ بنیں گی۔ ظفر علی خان مرحوم نے اپنے ایک شعر میں توکل کا خلاصہ بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے ؎
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
اس طرح توکل کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم کرسکتے ہیں، جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ آخری حد تک ہم کرگزریں اور جو ہمارے بس میں نہیں ہے اس میں بھی بے بسی کا کوئی احساس نہ آنے دیں، بلکہ اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بعد عزم ویقین اور اطمینان سے دل ودماغ لبریز رہے۔ فکرمندی اور بے اطمینانی اسی وقت تک ہو جب تک ہم اپنی تدبیر اور کوشش کا حق ادا نہیں کر رہے ہیں جب اپنے حصے کا کام کرلیا تو پھر اللہ کافی ہے اور اس کی مرضی پر ہم راضی اور مطمئن ہیں۔