سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک آدمی لرزاں و ترساں حاضر ہوا۔ مارے ہیبت کے اس منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ چہرے دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہوگیا تھا۔ سلیمان علیہ السلام نے اس کی یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو پوچھا اے خدا کے بندے! کیا بات ہے؟ تُو اتنا گھبرایا ہوا اور مضطرب کیوں ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ’’حضرت مجھے عزرائیل علیہ السلام نظر آیا اس نے مجھ پر ایسی غضب آلود نظر ڈالی کہ میرے ہوش و حواس گم ہوگئے۔ اب بار بار عزرائیل علیہ السلام کی وہ صورت آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ اس لیے مجھے کسی گھڑی بھی چین نہیں آرہا‘‘۔
اس نے التجا کی کہ آپ ہوا کو حکم دیں کہ وہ مجھے یہاں سے ہزاروں میل دور ملکِ ہندوستان چھوڑ آئے۔ ممکن ہے اس تدبیر سے میرا خوف کچھ دور ہوجائے۔ سلیمان علیہ السلام نے اسی وقت حکم دیا کہ اس شخص کو فوراً ہندوستان کی سرزمین میں پہنچادے، جونہی اس شخص نے قدم زمین پر رکھا وہاں عزرائیل علیہ السلام کو منتظر پایا۔ آپ نے اللہ کے حکم سے اس کی روح قبض کرلی۔
دوسرے دن سلیمان علیہ السلام نے بوقتِ ملاقات عزرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا آپ نے ایک آدمی کو اس طرح غور سے کیوں دیکھا تھا۔ کیا تمہار ارادہ اس کی روح قبض کرنا تھا یا پھر اس بیچارے کو غریب الوطنی میں لاوارث کرنا تھا۔
عزرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نے جب اس شخص کو یہاں دیکھا تو حیران ہوا کیونکہ اس شخص کی روح مجھے ہندوستان میں قبض کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ شخص ہزاروں میل دور یہاں موجود تھا۔ حکمِ الٰہی سے میں ہندوستان پہنچا جو میں نے اس کو وہاں موجود پایا۔
درس حیات:
انسان لاکھ تدبیر کرے۔ تقدیر اسے وہیں لے جاتی ہے جہاں اس کا نصیب ہو اور وہ خود تقدیر کے عزائم پورا کرنے کے لیے اسباب فراہم کرتا ہے۔