مورثی سیاستدان بلدیاتی نظام کو اپنے مفاد کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں

190

 

کراچی ( رپورٹ :محمد انور )مورثی سیاستدان بلدیاتی نظام کو اپنے مفاد کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان کی جماعتیںملکی سیاست میں اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے بلدیاتی انتخابات کرانے سے کتراتی ہیں۔نامور سیاستدان سابق وفاقی وزیر قانون اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بزرگ رہنما نبی داد خان المعروف این ڈی خان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہماری جماعتیں برطانوی جمہوری تاریخ کے پس منظر میں جمہوریت کے نظام کو نہیں سمجھ سکیں ، اسی وجہ سے ہمارے ملک میں گڈ گورننس نہیں ہوسکی، جب جڑیں صحیح نہیں ہوگی تو درخت کی گروتھ ( نمو ) نہیں ہوگی۔ این ڈی خان نے کہا کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں نچلی سطح یا بلدیاتی انتخابات متواتر ہوتے رہنا چاہیے جب تک نہیں ہوںگے اس وقت تک جمہوری نظام بھی مضبوط نہیں
ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آمروں نے بلدیاتی انتخابات اس لیے کرائے کہ انہوں نے سیاسی حکومتیں ختم کیں اور ملک کے سیاسی نظام کہ جگہ بلدیاتی نظام کو چلایا، جیسے مشرف سیاست دانوں کو تو مکے دکھاتا تھا مگر اس نے بلدیاتی نظام کو فروغ دیا ۔ جامعہ کراچی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کی چیئرپرسن ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ نے کہا کہ پہلے مذکورہ جمہوریت پسندی کی دعویدار پارٹیوں کو اپنی جماعتوں میں انتخابات کرانے چاہییں تاکہ پارٹیاں جمہوری کہلا سکیں ۔انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں پر مورثی سیاست غالب ہے ، یہ مورثی سیاست دان اپنی اجارہ داری ملک کے سیاسی نظام پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مفادات حاصل کرتے رہیں اس لیے وہ بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ثمر سلطانہ کا کہنا تھا کہ لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے بلدیاتی انتخابات ہوتے رہنا چاہیے یہی وہ نظام ہے جس کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کیے جاسکتے اور کیے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر و روزنامہ جسارت کے سابق چیف ایگزیکٹو مسلم پرویز نے کہا کہ ہم کو تو یہی جامعہ کراچی میں یہی پڑھایا گیا کہ پاکستان میں تو کبھی جمہوریت رہی ہی نہیں دوسری بات یہ کہ لیاقت علی خان کے بعد تو بالکل نہیں رہی، بلدیاتی انتخابات کرادیے جائیں اور بلدیاتی اداروں کو اختیارات دے جائیں تو قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے اراکین یہ سمجھتے ہیں پھر ہمارا کام کیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھتے ہی نہیں کہ ان کا کام قانون سازی کرنا ہے، مقامی سطح کا نظام 2001ء میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا دیا گیا تھا جو اچھا تھا مگر اسی دور میں سول بیورو کریسی کہا کرتی تھی کہ ہم اس نظام کو چلنے نہیں دیں گے اور بعد ازاں ایسا ہی ہوا وہ نظام ختم کردیا گیا۔ مسلم پرویز نے کہا کہ پوری دْنیا میں وہیں مسائل حل ہوتے ہیں جہاں نچلی سطح پر اختیارات ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے نظام می بھی بہتری گنجائش تھی ، جب تک کسی ایک ادارے کے پاس اختیارات نہ ہوںگے مسائل حل نہیں ہوسکتے اس کے لیے نہ صرف بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہے بلکہ ان اداروں کو بااختیار بنانا بھی ضروری ہے صوبوں کے پاس اختیارات ہونے سے مسائل حل نہیں ہوںگے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق کا کہنا تھا کہ ” بنیادی جمہوری نظام کے بارے میں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ وہ خود جمہوری نہیں ہے، اس لیے جب بھی بنیادی جمہوریت کی بازگشت ہوتی ہے تو ان کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہوتا ہے کہ کہیں ان کی جماعتوں میں جمہوری آوازیں نہ اٹھنے لگ جائیں۔اسی وجہ سے وہ بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی، پاکستان میں رہنے والی آمرانہ حکومتوں کی وجہ سے جمہوری نظام اور بنیادی عوامی نظام خراب ہوا ہے۔