سرما کی پہلی بارش‘ کورونا اور خادم حسین!

296

سردی تو خیر وسط اکتوبر میں پہاڑوں سے اُتر کر میدانی علاقوں میں آگئی تھی۔ لوگ سویٹر پہننے لگے تھے، بوڑھوں نے چادریں اوڑھ لی تھیں، مسجدوں میں گیزر چل پڑے تھے اور فجر کے وقت گیس کے ہٹر روشن ہوگئے تھے۔ سورج جو ابھی دو ہفتے پہلے تک آگ برسا رہا تھا اب انسانوں پر بہت شفیق ہوگیا تھا، دھوپ میں بہت نرمی آگئی تھی، دھوپ میں بیٹھنے اور دھوپ میں بدن کو نہلانے میں مزا آنے لگا تھا لیکن یہ خشک سردی بہت سے وبائی امراض بھی ساتھ لائی تھی۔ بخار، کھانسی، نزلہ زکام نے ہر گھر پر چھاپا مار رکھا تھا۔ سرکاری اسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس پر مریض کا رش لگا ہوا تھا اور کہا جارہا تھا کہ بارش کے بغیر ان بیماریوں کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔ مساجد میں بارش کے لیے دعائیں مانگیں۔ چناں چہ یہ دعائیں رنگ لائیں اور 11 نومبر کو بادل اُمد کر آئے اور رِم جھم شروع ہوگئی۔ اس بارش نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جب کہ پہاڑوں پر برفباری اپنا رنگ دکھانے لگی۔ اس بارش نے کم از کم تین دن تک اپنا تسلط جمائے رکھا اور سردی نقطہ ٔ انجماد کو چھونے لگی۔ بہرکیف بارش اور سردی کی لہر کا یہ نتیجہ ضرور نکلا کہ وبائی بیماریوں میں نسبتاً کمی آگئی۔ البتہ کورونا کی تازہ لہر بدستور چل رہی ہے اور اس سے ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ تعلیمی ادارے جو طویل عرصے کے بعد کھلے تھے اب پھر بندش کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اسلام آباد کے کئی سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں کورونا کیسز نکل آنے کے سبب تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ تعلیمی سیشن پہلے ہی بحران کا شکار ہے ایک دن کے وقفے سے کلاس ہورہی ہیں، اب شاید یہ سلسلہ بھی جاری نہ رہ سکے۔ طلبہ مایوسی کا شکار ہیں، ان کا کورس مکمل نہیں ہوا، اساتذہ انہیں زیادہ سے زیادہ ہوم ورک دے کر اپنے سر سے بلا ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کورونا کے سبب پورا تعلیمی سال شدید افراتفری کا شکار رہا ہے۔ طلبہ و طالبات دل لگا کر نہیں پڑھ سکے، لیکن کہا جارہا ہے کہ امتحانات مقررہ وقت ہی پر ہوں گے اور کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ تعلیم پر کسی قوم کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے، کورونا کی وبا عالمگیر تھی اس سے پوری دنیا میں تعلیمی
سرگرمیاں متاثر ہوئیں لیکن سب سے پہلے تعلیم کے شعبے ہی کو بحال کرنے پر توجہ دی گئی۔ اس وقت برطانیہ ہو یا آسٹریلیا، فرانس ہو یا جرمنی ہر جگہ معمول کے مطابق تعلیمی سیشن جاری ہیں اور کورونا سے بچائو کی تمام ضروری تدابیر بھی اختیار کی جارہی ہیں۔ لیکن پاکستان میں نہ کورونا سے حفاظت کی تدابیر پر عمل ہورہا ہے نہ تعلیمی پروگرام ہی کو ریگولرائز کیا جاسکا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم اس سلسلے میں آئے دن کوئی نہ کوئی شوشا چھوڑتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ماہ توہین آمیز خاکوں کے خلاف پورے ملک میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالا جائے۔ فرانسیسی سفارت خانہ بند کیا جائے اور پاکستانی سفیر کو واپس بلایا جائے۔ اس شدید احتجاج اور مطالبات کے نتیجے میں حکومت نے اتنا کیا کہ وزیراعظم نے ایک مذمتی بیان جاری کردیا اور فرانسیسی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اسے ایک احتجاجی مراسلہ تھما دیا۔ شاید اس سے زیادہ حکومت کے بس میں بھی کچھ نہ تھا۔ چناں چہ عوام بھی خاموش ہوکر بیٹھے رہے، لیکن ابھی مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ پتا چلا کہ علامہ خادم حسین کے لٹھ بردار بھی فرانس کے رویے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کا آزمودہ نسخہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹیں دے دی تھیں لیکن پنجاب بیورو کریسی کا روایتی تساہل، چشم پوشی اور معاملات کو بگاڑنے کی روِش غالب آئی اور تحریک لبیک کے ہزاروں لٹھ بردار فیض آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک دن ایک رات انہوں نے دھرنا دیے رکھا۔ پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ بالآخر رینجرز نے اِن لوگوں کے گرد گھیرا ڈال لیا، مذاکرات بھی ہوئے اور اس کے نتیجے میں علامہ خادم حیسن رضوی کے لٹھ برداروں کو قبضہ چھوڑنا پڑا۔ خادم حسین نے جاتے جاتے یہ انکشاف کیا کہ وہ یہ بتا کر جائیں گے کہ انہیں یہاں لے کر آنے والا کون تھا؟ خیر وہ اتنے بھی بیوقوف نہیں ہیں کہ ان پر سرمایہ کاری کرنے والے کا نام بتادیں۔ البتہ انہوں نے اس راز سے پردہ اُٹھادیا ہے کہ ان پر سرمایہ لگانے والی پارٹیاں کئی ایک ہیں۔ اس طرح پیسہ پھینک کر تماشا دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ کھیل ہورہا ہے اور بڑے دھڑلے سے ہورہا ہے۔ شاید اسی کا نام سیاست ہے۔