صوبائی حکومت کو من پسند سندھی اعلیٰ افسران کی کمی کا سامنا

65

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت سندھ کے پاس من پسند اور سندھی بولنے والے اعلیٰ افسران کی غیر معمولی کمی ہوگئی جس کی وجہ سے حکومت نے گریڈ 20 کی اسامیوں پر گریڈ 21 کے افسران کی تعیناتی شروع کردی اور ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے) کے ڈی جی کی ٹیکنکل پوسٹ پر بھی گریڈ 21 کے افسر محمد شمس الدین سومرو کو
تعینات کردیا۔ حالانکہ محمد شمس الدین سومرو پہلے سے اپنے پاس ایڈیشنل چیف سیکرٹری سندھ اور صوبائی محتسب کا چارج رکھتے ہیں۔ صوبے میں بیورو کریٹ کی کمی نہیں ہے لیکن قوم پرست سائیں سرکار کی مبینہ طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ سندھی یا بنیادی طورپر غیر مقامی ملک کی قومی زبان اردو نہ بولنے والے افسران کو اہم اسامیوں پر مقرر کیا جائے، جیسا کہ حال ہی کمشنر کراچی ڈویژن کی حیثیت سے کسی دوسرے افسر کو متعین کرنے کے بجائے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی افتخار شالوانی کو کمشنر کراچی کا اضافی چارج دے دیا گیا۔ سیکرٹری کی گریڈ 20 کی اسامیوں پر تعینات کرنے کے لیے افسران کی کمی کے باعث گورنر سندھ کے سیکرٹری سمیت 5 اسامیاں گزشتہ کئی ماہ سے خالی ہیں جبکہ حکومت ان اسامیوں پر کسی افسر کو اضافی چارج دینے سے بھی قاصر ہے ان دیگر اسامیوں میں رکن بورڈ آف ریونیو جوڈیشل 2 سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کمیشن، ایم ڈی، سندھ ایجوکیشن وکیشنل ٹریننگ اتھارٹی اور چیئرمین ای او بی آئی شامل ہے جبکہ جن اسامیوں پر تقررکے لیے افسران نہ ملنے کی وجہ سے دیگر کو اضافی چارج دیا گیا ہے ان میں چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن و انکوائری اینڈ امپلی مینٹنٹشن ٹیم، سیکرٹری لائیو اسٹاک اینڈ فشریز، سیکرٹری انفارمیشن، سیکرٹری اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی، سیکرٹری اقلیتی امور، سیکرٹری ہیومن رائٹس اور رکن جوڈیشل بورڈ آف ریونیو شامل ہیں۔ سندھ گورنمنٹ کو من پسند افسران نہ ملنے پر حکومت نیب کے مقدمات میں ملوث افسران کو مختلف اسامیوںپر تعینات کرنے پر بھی مجبور ہے۔ حکومت سندھ کی مجبوری یہ بھی ہے کہ نیک شہرت کے افسران ان دنوں کسی اسامی پر خدمات انجام نہیں دینا چاہتے کیونکہ انہیں خدشات ہیں کہ حکومت ان پر مبینہ طور پر خلاف قانون کام کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔