کورونا وائرس اور پاکستان کا زرعی شعبہ

216

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کی دوسری لہر شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ مجموعی کیسز ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہوچکے ہیں اور ساڑھے سات ہزار افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں۔ سرکاری مشینری سر جوڑے بیٹھی ہے۔ ایک طرف بھوک و غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف کورونا سے اموات بڑھ رہی ہیں۔ مکمل لاک ڈائون، جزوی لاک ڈائون، اسمارٹ لاک ڈائون، بہتر راستہ نکالنے کے لیے مختلف سطحوں پر روز بروز کیس بڑھ رہے ہیں۔ ویسے تو پڑوسی ممالک بھارت اور ایران کے مقابلے میں خدا کے فضل سے پاکستان کے حالات بہتر ہیں جہاں اس سے بچائو کے اقدامات تو کیے جارہے ہیں لیکن اس بڑھتی ہوئی وبا سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ سے رجوع اور توبہ و استغفار پر توجہ بھی ہونی چاہیے جو ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ میں بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد اپنی زندگی کو ایک کمرے تک محدود کرچکا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک کورونا کی پیچیدگیوں سے بچا ہوا ہوں۔ اور دعا ہے کہ جلد از جلد صحت یاب ہوجائوں۔
معیشت پر کورونا وائرس کے اثرات تباہ کن ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کے وہ شعبے جن میں اکٹھے ہو کر یا اجتماعی طور پر اور مل جل کر کام ہوتا ہے۔ مثلاً کارخانے، فیکٹریاں، شاپنگ مال، ملکی اور غیر ملکی سفر و سیاحت، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں، ریٹیل اور ہول سیل بزنس ہو، کورونا کے پھیلائو کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا میں ان تمام سرگرمیوں کو محدود کیا جارہا ہے۔ طرح طرح کے اسٹینڈرڈ آپریشن پروسیجرز (SOP) وضع کیے جارہے ہیں لیکن زراعت وہ شعبہ ہے جس میں لوگ کھیتوں میں الگ الگ کاشت کاری کررہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملنا جلنا کم ہوتا ہے لیکن پاکستان میں زرعی شعبے کی کارکردگی گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے نیچے کی طرف جارہی ہے۔ کپاس پاکستان کی ایک اہم فصل ہے، گارمنٹ، ٹیکسٹائل، ہوزری اور جننگ فیکٹریوں کا دارومدار کپاس کی پیداوار پر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کپاس کی اہم پیداوار والے ممالک میں شمار کیا جاتا تھا اور ہر سال بارہ سے چودہ ملین گانٹھیں پیدا ہوتی تھیں۔ لیکن اس وقت سال 2020ء کی رپورٹ سامنے آئی ہے اس کے مطابق کاٹن کی پیداوار سات سے آٹھ ملین گانٹھوں تک پہنچے گی۔ چناں چہ پاکستان کو تین سے چار ملین ڈالر کپاس کی درآمد پر خرچ کرنا ہوں گے اور اگر امپورٹڈ کاٹن مہنگی ہوئی تو انٹرنیشنل مارکیٹ میں ٹیکسٹائل کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ اسی طرح جننگ فیکٹریز کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم بار بار یہ بات دہرا رہے ہیں کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ سر پلس ہوگیا ہے۔ جب معاشی سرگرمیاں سست ہوں، ایکسپورٹ اور امپورٹ کم ہوں، بیرونی ملک سفر کم ہو تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ سرپلس ہوسکتا ہے لیکن اب ہم چینی، گندم اور کپاس درآمد کریں گے پھر ہمارا خسارہ بڑھ جائے گا۔ کپاس کی کم پیداوار میں شوگر مافیا کا بھی ہاتھ ہے اُن کے کارنامے مسابقتی کمیشن آف پاکستان سامنے لا چکا ہے۔ انہوں نے کسانوں پر دبائو ڈال کر گنے کی کاشت کی زمین میں اضافہ کردیا۔ کپاس کی پر کاشت زمین سال 2018-20 میں 3.4 ملین ہیکڑ سے کم ہو کر 25 ملین ہیکڑ کردی۔ تاکہ گنے کی پیداوار زیادہ ہو اس سے شوگر کی پیداوار بڑھ گئی پھر حکومت پر دبائو ڈال کر امپورٹ کی زیادہ شوگر ملیں ملک میں چینی کی قلت ہوجائے گی اور قیمت پھر اوپر چلے جائے گی۔ انڈیا اور چین کاٹن کے شعبے پر توجہ دے کر پیداوار بہت آگے لے گئے ہیں ہماری پیداوار کم ہو رہی ہے جبکہ زرعی پیداوار میں بہتری کے لیے پاکستان میں درجنوں ادارے موجود ہیں۔
یہی معاملہ گندم کا بھی ہے اس کی اوسطاً سالانہ پیداوار 22 سے 26 ملین ٹن ہے جبکہ گندم کی پیداوار کے بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان 36 ملین ٹن پیداوار تک لے جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بہتر کرنا ہوگا پاکستان میں جو گندم پیدا ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ مناسب دیکھ بھال اور ذخیرہ کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وہ سے خراب ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے میں بہت گنجائش ہے اس پر مناسب توجہ دے کر ملکی معیشت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔