وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے اور بہت جلد اس کا شمار دنیا کے طاقتور ممالک میں ہونے لگے گا۔ خان صاحب! آپ کے منہ میں گھی شکر آپ نے قوم کو جو خوشخبری سنائی ہے وہ عوام کے دل کی مراد ہے۔ ان کے جذبات اور احساسات کی ترجمان ہے اگر آپ کی حکومت نے قوم کو افلاس کی دلدل میں نہ دھکیلا ہوتا تو وہ آپ کا منہ موتیوں سے بھر دیتی اور اس امکان کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کو امیر المومنین بھی تسلیم کر لیتی۔ یوں آپ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے زیادہ خوش نصیب ہو سکتے تھے۔ موصوف نے بھی امیر المومنین بننے کی خواہش کی تھی۔ اگر خواہش بے لگام ہو تو آدمی کو سرکش گھوڑے کی طرح زمین پر پٹخ دیتی ہے۔ سو، میاں نواز شریف بھی اپنی بے لگام خواش کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اور ایسے چڑھے ہیں کہ اترنے کی ہر خواہش سعی نا مشکور بن گئی ہے۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان میاں نواز شریف کے انجام سے دو چار ہو سکتے تھے۔ مگرمشکل یہ ہے کہ دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں کبھی پانچ نہیں ہوتے۔
عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ شیخ چلی کی طرح صرف باتیں بنا سکتے ہیں۔ کہ یہی ان کا شوق ہے اور شوق انمول ہوتا ہے۔ جہاں تک ان کے عمل کا تعلق ہے تو وہ دہلی کے احدی ہیں۔ کہ وہ اسی شمار میں آتے ہیں۔ دہلی کے احدیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جیتے ہیں ان کا جینا مرنا صرف پیٹ بھرنے کے لیے ہوتا ہے کوئی مرے یا جیے اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا دوسرا مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں مومنین کی ایسی قلت پڑی ہے کہ لوگ قحط الرجال کو بھی بھول چکے ہیں۔ بہت سے لوگ قحط الرجال کے معنی سے بھی واقف نہیں۔
لوگ اپنی پسند کا کھانا کھا سکتے ہیں نہ اپنی پسند کا لباس پہن سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے حکمرانی کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا ہے۔ شاید وہ اسی تبدیلی کا ورد کیا کر تی تھی۔ ان کی حکومت نے ایسی افرا تفری مچائی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو تفریح بھی نہیں کروا سکتے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو لو گ تفریح کے معنی بھی بھول جائیں گے۔ مگر ان حالات میں بھی عمران خان کی دیدہ دلیری کی داد دینا پڑے گی کہ وہ پاکستان کو ایک خوش حال ملک قرار دے رہے ہیں۔ اور قوم کو باور کروا رہے ہیں کہ بس کچھ دنوں کی بات ہے کہ پاکستان کا شمار طاقتور ملکوں میں ہونے لگے گا۔ بدنصیبی یہ بھی ہے کہ پنجاب کے دانشوروں کو اپنی آنکھ کا شہتیر تو دکھائی نہیں دیتا مگر سندھ کی آنکھ میں پڑا ریت کا ذرہ اچھی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظر میں سندھ کی حکومت اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تصویر ہے۔ نیب سندھ کے کرپٹ افسروں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر سندھ کے حکمرانوں کو دے رہی ہے۔ مگر سندھ کی حکومت انہیں دوبارہ اپنے عہدوں پر بحال کر رہی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر سوال یہ ہے کہ نیب نے انہیں عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا۔ تاکہ انہیں قرار واقعی سزا دی جاتی۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سارا کھیل مک مکا کا ہو۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سندھ حکومت کو لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں کی گئی بلکہ ان پر نچھاور کی گئی ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو کرپٹ افراد کو عدالتوں سے قرار واقعی سزا دلانا نیب کی ذمے داری ہے۔ اس کا اخلاقی فرض ہے۔ مگر یہاں سے تو اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ اور جنازے کو جلد از جلد دفنانا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ۔۔ تعفن پھیلانے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔
حکومت کے اقتصادی مشیر اور ماہرین قوم کو یہ باور کرانے میں جتے ہوئے ہیں کہ موجودہ مہنگائی کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں قرض لینا پڑا۔ بہت کوشش کی کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض نہ لیا جائے کیونکہ ہم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ قرض پر سود ہی نہیں دیا جاتا۔ خطے میں امریکا کے مفادات اور اس کی خارجہ پالیسی کے اہداف میں معاونت کی پابندی بھی کی جاتی ہے۔ مگر معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ یہ معاونت دراصل سہولت کاری کی ترقی یافتہ کی صورت ہوتی ہے۔ جو مقروض ممالک کو ہر صورت میں سرانجام دینا ہوتی ہے۔ اور مقروض ملک خطے کے ممالک کے لیے ناپسندیدہ بن جاتا ہے۔ جو ممالک یا ادارے امریکا کے دبائو میں ہوتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے ملک سے مخلص نہیں ہوتے حتیٰ کہ اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف بھی امریکا کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔