آخری سانس تک لبیک

470

مولاناخادم حسین رضوی اپنے رب کے حضور تشریف لے گئے۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اہل دنیا کو آگاہ فرما رہے ہیں کہ رسالت مآب محمد ؐ ایک ایسی ہستی ہیں جن کی بارگاہ الٰہی میں بھی تعظیم ہے، احترام ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو آپ ؐ کی بے ادبی اور توہین تو بڑی بات یہ بھی گوارا نہیں کہ مومن انہیں اس طرح بے تکلفی سے پکاریں جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہمارے محبوب سیدالمرسلین ؐ کو اس طرح ہرگز مخاطب نہ کرو۔ یہ ادب کا مقام ہے۔ انسانی علم کی معراج یہی ہے کہ آپؐ بشر ہیں لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبوب ترین ہستی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں صرف چار مقامات پر آپؐ کو محمدؐ اور ایک جگہ احمدؐ کہہ کر مخاطب کیا گیا ورنہ جہاں ضرورت پڑی یا ایھا النبی، یا ایھا الرسول، یا ایھا المزمل، یا ایھا المدثر کہہ کر خطاب کیا گیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے محمد ؐ سے زیادہ عزت والا کوئی ذی نفس پیدا نہیں کیا اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپؐ کے سوا کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔ ’’(اے محمد) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہورہے) تھے: )الحجر: (72
کسی دنیاوی اور انسانی معیار کے مطابق آپؐ کی عظمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ زبان وبیان کے کتنے ہی خوش رنگ زاویے تراشے جائیں آپؐ کے اوصاف کا بیان ممکن نہیں۔ آپؐ کی ذات اقدس قرآن کریم کا خصوصی مضمون ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں آپؐ کا تذ کرہ ہے محسوس ہوتا ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپؐ سے محو گفتگو ہیں۔ آپؐ کی محبت نہیں تو ایمان نہیں، نجات نہیں، روشنی نہیں۔ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل۔ آپؐ کی حرمت اور ناموس وہ ادب گاہ کہ سانسیں راستہ بھول جائیں۔
علامہ خادم حسین رضوی ناموس رسالتؐ کی اسی حساسیت کا بیان تھے۔ اس فضیلت کا احساس پیدا کرنے اور حجت تمام کرنے میں انہوں نے زندگی لگادی۔ حرمت رسولؐ کو غیر اہم بات سمجھ کر اس کا حل تجویزکرنے والوںکو انہوں نے بتایا کہ گستاخی رسول معمولی بات نہیں کہ انفرادی عمل میں اس کا جواب تلاش کیا جائے۔ اس کا جواب ریاست کو دینا چاہیے۔ ریاست کو متحرک ہونا چاہیے۔ گستاخی رسول کے مرتکبین کو وہ کوئی رعایت دینے کے لیے تیار تھے اور نہ اس باب میں کسی سستی کے روادار۔ زبان وبیان پر انہیں قدرت حاصل تھی۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ومغفور کے بعد اس محبوبیت اور روانی سے کلام اقبال پڑھتے انہیں ہی سنا۔
ایک ایسے وقت میں جب علماء کرام کی اکثریت اپنی خانقاہوں اور مدارس کی پناہ گاہوں میں سمٹی ہوئی ہے مولانا خادم حسین رضوی معذوری کے باوجود ناموس رسالتؐ کی حفاظت کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ نہ ایجنٹ حکمرانوں سے مرعوب تھے اور نہ کرپٹ جرنیلوں سے۔ وہ درباری علماء کی طرح عمران خان اور جنرل باجوہ کی چاپلوسی نہیں کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح بلاول اور مریم نواز جیسے سیکولر لوگوں کے ساتھ جلسے کررہے تھے۔ وہ ایک عاشق رسولؐ کے لہجے میں ان حکمرانوں کو مخاطب کرتے تھے۔ بغیر کسی ڈر اور خوف کے ’’تمہارے بارے میں کوئی بات کرے تو شام سے پہلے تم اسے گھر سے اٹھا لیتے ہوکہ ہماری بے ادبی ہوگئی۔ سرعام ختم نبوت کا انکار کیا جائے اس وقت قانون کے محافظ اور ادارے کہاں چلے جاتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے بارے میں بکواس کی جائے تمہاری غیرت نہیں جاگتی۔ تمہیں اپنی جتنی بھی نبی اکرم ؐ کی غیرت نہیں ہے‘‘۔ اس لہجے میں اب شاید ہی کوئی حکمرانوں کو للکار کرسکے۔
آج مغرب ناموس رسالتؐ کے درپے ہے۔ مسلم حکمران خا موش ہیں۔ اگر کہیں سے آواز اٹھتی ہے تو ڈری ڈری سہمی سہمی۔ منہ توڑ اقدام کے بجائے بات بسکٹوں، شیمپوئوں اور بعض دیگر اشیا کے بائیکاٹ سے آگے نہیں بڑھتی۔ ایک علامہ خادم حسین رضوی تھے جو پورے جاہ وجلال کے ساتھ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور سفارتی سطح پر ایکشن لینے کی بات کررہے تھے۔ معذوری اور بیماری کے باوجود مصیبتیں اور مشقتیں اٹھا رہے تھے۔ قید وبند سے ڈرانے والے حکمران ہوں یا جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والے سیکولر اور لبرلز وہ سب کے لیے شمشیر برہنہ تھے۔
عین ممکن ہے نواز شریف حکومت کو دبائو میں لانے کے لیے فیض آباد دھرنے میں وہ جانے انجانے استعمال ہوگئے ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیںکہ مولانا خادم حسین رضوی اور مظاہرین کے سامنے حب رسولؐ کے سوا کوئی اور مقصد تھا۔ حالات کی بنا پر ممکن ہے ان کا وہ اقدام کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان پہنچنے کا سبب بنا ہو لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ عمل ہی غلط تھا۔ اگر مولانا خادم حسین رضوی ایجنسیوں کے ایسے ہی فرمانبردار ہوتے تو وہ کبھی موجودہ ہائبرڈ انتظام میں حکومت کے خلاف نہ نکلتے۔ وہ کسی کے دوست اور دشمن نہیں تھے۔ ان کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اور حب رسولؐ تھی۔
ان کے طرز بیان اور لب و لہجے پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا جاسکتا ہے اور کیا بھی گیا۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جہاں ہم اپنے سیا سی لیڈروں اور حکمرانوںکو ان کی گالم گلوچ، ناشائستہ بیانات اور ملک وقوم کی دشمنی پر مبنی اقدامات پر، اپنے علماء کرام کو گھسے پٹے طرزعمل پر اتنی رعایتیں دیتے ہیں، لہجے بدل بدل کر تاویلیں کرتے ہیں اس عاشق رسولؐ کے باب میں بھی کوئی تاویل کرلیں۔ تھوڑی سی رعایت انہیں بھی دے دیں۔ انہوں نے ریاست سے وہ مطالبہ کیا تھا جو ہر مسلمان کو کرنا چاہیے تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’اگر روز محشر نبیؐ نے کہہ دیا کہ میری توہین پر یہ چپ چاپ بیٹھا تھا۔ یہ میرا امتی نہیں ہوسکتا تو پھر کیا کروگے؟ کہاں جائوگے؟‘‘
علامہ خاد م حسین رضوی ایسی دنیا میں رہنے کے لیے تیار نہیں تھے جہاں ان کے نبیؐ کی توہین کی جاتی ہو، آپؐ کے خاکے بنائے جاتے ہوں اور امت مسلمہ کے حکمرانوں کی طرف سے کسی حقیقی ردعمل کا، کسی غیرت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ ’’کسی کے لیے معافی نہیں ہے۔ جس کا دل کرے گولی ماردے، جس کا دل کرے مجھے زہر دے دے، جس کا دل کرے مجھے جیل میں لے جائے جس کا دل کرے مجھ پر دہشت گردی کے مقدمے بنادے۔
مجھے کوئی ضرورت نہیں اس زندگی کی۔ جب رسول اللہؐ کے خاکوں کا اعلان ہوا اور تم اس کے لیے کوئی جملہ کہنے کے لیے تیار نہیں، کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں تم نے کس کا کلمہ پڑھا ہے وہ کلمہ مجھے بھی بتائو‘‘۔ دوماہ پہلے انہوں نے ایک تقریر میں کہا تھا ’’ہمیں آخرکار اس دین کی طرف آنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یا پھر انتظار کرو اللہ کے عذاب کا۔ سادہ لوگو دین کی طرف بس چلنے کی دیر ہے پھر رحمتیں ہی رحمتیں ہیں برکتیں ہی برکتیںہیں امن ہی امن ہے سکون ہی سکون ہے۔ کیا ملا بہتر سال میں رسول اللہؐ کے دین سے بغاوت کرکے۔ کیا ملا۔ روٹی بھی نہیں ملی‘‘۔ آخری دھرنے کے موقع پر انہیں بخار تھا۔ سانس لینے میں بھی دشواری محسوس ہورہی تھی۔ انہیں معلوم تھا اسلام آباد کی ٹھٹھرتی راتیں ان کے لیے جان لیوا ہوسکتی ہیں۔ آخری سانسیں بھی انہوں نے اپنے نبیؐ کی ناموس پر نچھاور کردیں۔ اللہ ان کی لغزشوں سے درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ اب وہ اپنے اس ربّ کے پاس ہیں جن کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ جو دلوں کے حال جانتے ہیں۔