تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکر

214

گلگت بلتستان کے الیکشن ہو چکے اور جو نتائج بھی اب تک سامنے آئے ہیں، اس کے نتیجے میں جو حالات سامنے آنے ہیں، قوم اس کی منتظر ہے۔ آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان، اپنی ایک سیاسی تاریخ رکھتے ہیں۔ ان علاقے کے باسیوں کو عام طور پر پارٹیوں سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں رہی ہے۔ ان کی دلچسپیاں ہمیشہ اس امر سے وابستہ رہی ہیں کہ ان کے مقامی مسائل کون زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام ملک کی تمام قومی جماعتوں سے وابستگی رکھنے کے باوجود، فوقیت اپنے مسائل کے حل کو ہی دیتے نظر آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علاقوں میں جب جب بھی الیکشن منعقد ہوئے، انہوں نے ہمیشہ حکمران جماعت کے حق میں ہی اپنی رائے کا استعمال کیا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس مرتبہ گلگت بلتستان کے الیکشن حکمران جماعت سمیت، تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک لمحہ فکر بن کر رہ گئے۔ اگر الیکشن کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو آسانی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے تمام سیاسی جماعتوں پر کھل کر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اپنی رائے سیاسی جماعتوں کے بجائے آزاد امیدواروں کے حق میں استعمال کی۔ عوام کا یہ رجحان جہاں ان کے شعور کی بیداری کی علامت اور اپنے ووٹ کی طاقت کی بہترین مثال ہے وہیں یہ بات بھی بہت قابل غور ہے کہ اگر اسی انداز کی بیداری نے پورے ملک میں جنم لے لیا اور عوام کی واضح اکثریت نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پر اسی طرح کی بے اعتمادی و بے یقینی کا اظہار کرنا شروع کر دیا تو کیا پاکستان میں کبھی حقیقی عوام قیادت جنم لے سکے گی اور اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو کیا جمہوریت پاکستان میں پھل پھول سکے گی؟، یہ ایک ایسا سوال ہے جو تمام سیاسی جماعتوں اوران کے قائدین کے لیے لمحہ فکر سے کم نہیں۔
گلگت بلتستان ہو یا آزاد جموں کشمیر، یہاں کے عوام اس لحاظ سے بہت منفرد رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے مسائل کا حل ہمیشہ اقتدار نشینوں ہی میں ڈھونڈا ہے۔ شاید یہ درست بھی ہے کیونکہ جو جماعت بھی اقتدار میں ہوتی ہے وہ عوام کے مسائل زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتی ہے۔ بے شک ایک حقیقی جمہوریت اور آئین و قانون کے مطابق چلنی والی حکومت بلا امتیاز و تفریق سب کی حکومت ہوا کرتی ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور وہ جماعتیں یا منتخب ہونے والے ارکان پالیمنٹ جو حسب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، صاحبان اقتدار کی جانب سے نہ صرف دباؤ کا شکار رہے ہیں بلکہ انتقامی کارروائیوں کی زد میں بھی دیکھے جاتے رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کے لوگوں نے اپنے مسائل کا حل مخالفت کے بجائے موافقت میں ڈھونڈنے ہی میں بہتری سمجھی ہو لیکن اس مرتبہ کے تنائج اس بات کی علامت ہیں کہ ایک ایسی حکومت جس کا نعرہ ہی تبدیلیاں، عوام کے لیے آسانیاں، اشیا کو ارزاں اور وافر کرنا، کروڑوں آسامیوں کا دینا اور بے چھتوں کو چھت فراہم کرنا تھا، ڈھائی برسوں میں بھی ایسا کچھ کرنے میں نہ صرف شدید طور پر ناکام رہی بلکہ ہر دعوے کا برعکس ثابت ہوئی۔ ان سے پہلے والی حکومتوں پر بھی ملک کی دولت کی خورد برد کے اتنے سنگین الزامات ہیں کہ عوام سابقہ حکمرانوں اور ان کے قائدین کی جانب سے سخت الجھن کا شکار ہیں۔ یہی ساری الجھنیں اس بات کا سبب بنیں کہ گلگت بلتستان کے عوام نے حکمران جماعت سمیت ہر سیاسی جماعت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آزاد امیدواروں کا انتخاب کیا۔
گلگت بلتستان کے الیکشن میں حکمران جماعت بے شک سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر کامیاب ہوئی ہے لیکن اس کو حکومت بنانے کے لیے تمام کے تمام آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانا یا اپنے ارکان کے برابر مزید ارکان کی حمایت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے جو ایک نہایت دقت طلب بات ہے۔ پاکستان ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے سلسلے میں بڑی شہرت رکھتا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایسے سنہری موقعوں سے اقتدار میں شریک ہونے والے ارکان بھی اپنی اپنی منہ بولی قیمتیں لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ پاکستان میں عوام اور جمہوریت کا کیا بنتا رہا ہے اور اب کیا بننے جارہا ہے، اس بات کی پروا نہ تو عوام کو کبھی رہی ہے اور نہ عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے ارکان کو، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام ہر انتخابات کے بعد بھاری سزائیں بھگتے رہے ہیں جو مہنگائی اور ٹیکسوں کی صورت میں انہیں ملتی رہی ہے۔ جب تک عوامی شعور صحیح معنوں میں بیدار نہیں ہو جائے گا، یہ سزائیں عوام کا مقدر رہیں گی۔ گلگت بلتستان کے الیکشن تمام سیاسی پارٹیوں اور قائدین کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہیں اور خاص طور سے حکمران جماعت کے لیے کہ اب عوام ان سے کارکردگی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے عدلتوں سے باعزت برأت کے منتظر ہیں۔ بصورت دیگر شاید وہ یا تو ووٹ ڈالنے باہر ہی نہ آئیں یا پھر آزاد امیدواروں کو کامیاب کرانے کو ترجیح دیں۔