عمران خان کا دورہ افغانستان اور قیام امن

291

عمرا ن خان جوبائیڈن کی کامیابی کے بعد پہلے سرکاری دورے پر افغانستان روانہ ہوئے۔ اس دورے میں عسکری قیادت بھی عمران خان کے ساتھ تھی پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی کی دعوت پر افغانستان کا دورہ کیا جہاں دوطرفہ تعلقات، افغان امن عمل، دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت اور دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوئی۔ اس دورے کی خاص بات یہ ہے اس دورے میں وہ تمام لوگ عمران خان کے ساتھ تھے جن کی موجودگی سے امریکا خوش ہے اور خاص طور پر بائیڈن کے لیے اہم ہیں اس کے بر عکس پاکستانی کابینہ کے ان افراد کو چین متعدد مرتبہ امریکا کے مخبر کے طور پر یاد کرتا رہا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہو نے و الے آزاد تجارتی معاہدہ کے وقت بھی عبدالرزاق داؤد کو تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان افغانستان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایک جانب افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے ہونے کے باوجود شدت پسندی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان انٹرا افغان مذاکرات دو ماہ گزرنے کے باوجود شروع نہیں ہوئے ہیں۔
چند دن قبل پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں افغانستان پر ایک بار پھر الزام لگایا تھا کہ بھارت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ وزیراعظم کے اس دورے سے تین دن قبل ہی مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد افغانستان کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں اور انہوں نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور دیگر حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے پر بات چیت کی ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کی سر زمین تواتر سے پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بھارتی سازش سے امن ومان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بدھ اور جمعرات کی شب بھی افغانستان سے پاکستانی چوکیوں پر حملے میں ہمارے دو جوانوں کی شہادت ہوئی۔
عمران خان کا وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے لیکن گزشتہ دو برسوں میں اْن کی افغان صدر کے ساتھ یہ تیسری ملاقات تھی۔ ان کی پہلی ملاقات گزشتہ برس مئی میں سعودی عرب میں اور ایک ماہ بعد ہی افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کی سب سے اہم بات یہ تھی اس موقع پر کابل میں افغان نائب صدر عبداللہ عبداللہ کہیں نظر نہیں آئے اور بعد میں پتا چلا کہ وہ ترکی کے دورے پر ہیں اور وہاں انہوں نے صدر طیب اردوان سے ملاقات کی۔
دوحہ میں رواں برس فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد اگرچہ جلد ہی انٹرا افغان مذاکرات شروع ہونے تھے لیکن افغان حکومت کی جانب سے تاخیر کی وجہ سے تاحال یہ مذاکرات باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوسکے۔ ان مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ اشرف غنی رہے جنہوں نے امریکا افغان حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت طالبان قیدیوں کی رہائی میں بلا جواز تاخیری حربے استعمال کیے۔ افغان عوام چاہتے ہیں کہ جنگ بندی ہو تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی پر بین الافغان مذاکرات ہی میں بحث ہو گی۔ دوحہ میں اگرچہ دونوں مذاکراتی ٹیموں کے درمیان دو ماہ سے ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن ادھر کابل اور دیگر شہروں میں افغان حکومت اور فوج کے خلاف طالبان کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
امریکا، افغان حکومت اور پوری دنیا پاکستان پر طالبان پر اثر و رسوخ کا الزام لگاتے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں تو پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی یہ کہا تھا کہ اگر پاکستان کی کوششیں نہ ہوتیں تو یہ معاہدہ نہ ہوتا۔ پاکستان کے اسی اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے افغان حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان بین الافغانی مذکرات میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرے اور طالبان ان مذاکرات کے آغاز ہی سے جنگ بندی کا اعلان کر لیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آخر تک طالبان جنگ بندی پر راضی ہو جائیں گے۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے طالبان پر اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے ہم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بین الافغان مذاکرات میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرے جیسا کہ انہوں نے امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں ادا کیا تھا۔ اشرف غنی حکومت سمجھتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا پہلے ہی دن سے یہ موقف ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جنگ سے نہیں بات چیت سے حل ہوگا۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار ایاز وزیر سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ افغانستان نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان مثبت پیش رفت کا باعث بنا ہے بلکہ دوحہ میں جاری افغان حکومت اور طالبان کے درمیان باضابطہ مذاکرات کے لیے بھی راہ ہموارہو سکتی ہے۔
یہ بات بار بار کہی جارہی ہے کہ اب امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں بدھ کو پینٹا گون نے ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ فوری طور پر افغانستان سے 2ہزار 500 ناٹو افواج کا انخلا ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو ا کہ اب بھی افغانستان میں ناٹو کی 600 افواج مستقل طور پر موجود رہے گی اور یہ صورتحال افغان طالبان اور پاکستان دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ نئی امریکی قیادت کے بعد خطے میں اگر کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو بھی وزیراعظم عمران خان کا دورہ کابل دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ عمران خان اپنے ساتھ ان لوگوں کو ساتھ لے گئے جن پر امریکی حمایتی ہونے کا الزام ہے۔
بھارت، افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور بلوچ عسکریت پسند دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اہم وجوہ سمجھے جاتے ہیں۔ افغانستان، پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں جبکہ پاکستان، تحریک طالبان کے تمام حملوں کی ذمے داری افغانستان پر ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ بھارت پاکستانی طالبان اور بلوچ عسکریت پسندوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کا یہ بھی الزام ہے کہ حال ہی میں پاکستان میں بننے والی سیاسی تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے پیچھے بھی افغان حکومت اور بھارت کا ہاتھ ہے اور جب افغان صدر اشرف غنی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے حق میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس تحریک کے حق میں ٹویٹس کیں تو پاکستان نے اس پر بھی شدید احتجاج کیا تھا اور اس کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔