نواز لیگ سے استعفا اور دُشنام طرازی

270

پاکستان مسلم لیگ نواز بلوچستان کے صدر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے بالآخر 07نومبر 2020ء کو اپنی جماعت سے راہیں جدا کر لیں۔ باضابطہ اعلان کوئٹہ کے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار پر ورکرز کنونشن نام کے ایک اجتماع میں کیا۔ بقول ان کے کہ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع سے کارکن اور مختلف سطح کے رہنماء شریک ہوئے تھے۔ جہاں بیس اضلاع کے صدور اور دوسرے عہدیداروں نے بھی مسلم لیگ نواز کو خیر باد کہا۔ مریم نواز کی کوئٹہ آمد اور ایوب اسٹیڈیم میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسہ عام میں نواب ثناء اللہ زہری کو مدعو نہ کرنے پر عبدالقادر بلوچ کا اظہار اختلاف و خفگی ہی دونوں صوبائی رہنمائوں کا اپنی جماعت سے علٰیحدگی کی وجہ ٹھیری ہے۔ اول جنرل (ر ) عبدالقادر بلوچ اس موضوع پر بو لے، بعد ازاں نواب زہری بھی بول پڑے۔گویا جلسہ میں نہ بلانے کے حیلہ کے بعد انہوں نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے حکام کے خلاف پی ڈی ایم، بالخصوص میاں محمد نواز شریف کے بیان کا تڑکا بھی لگایا۔ لیگ کے مرکزی رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ عبدالقادر بلوچ سے کوئٹہ میں اس بابت طویل گفتگو ہوئی۔ جن کا اصرار ثناء اللہ زہری کو مدعو کرنے پر تھا، کہ وہ ان کے قبیلے کے سربراہ ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، طلال چودھری اور دوسرے پارٹی رہنمائوں نے عبدالقادر بلوچ کو صورتحال سمجھنے کی درخواست کی تھی کہ وہ ایک بڑے مقصد کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ اس لیے نہیں چاہتے کہ سردار اختر مینگل جلسہ میں شریک نہ ہو پائیں۔ طلال چودھری نے عبدالقادر بلوچ کے نقطہ نظر کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ عبدالقادر بلوچ پارٹی چھوڑتے ہوئے سچ نہیں بولے ہیں۔ بقول طلال چودھری کے کہ پارٹی کی ’’سی ڈبلیو سی‘‘ میں نواز شریف نے اس سے بھی سخت باتیں کی تھیں اور سب نے ہاتھ اُٹھا کر اُن کی تائید کی تھی۔ جس میں جنرل عبدالقادر بلوچ بھی شامل تھے۔ واقعتا اگر جنرل عبدالقادر بلوچ کو اعتراض ہوتا تو میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف کا یہ بیانیہ آج کا تھوڑی ہے۔ نیز مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی (میر حاصل بزنجو مرحوم بھی) اور دوسرے رہنماء ان خیالات کی تکرار پی ڈی ایم کی تشکیل سے پہلے سے کرتے رہے ہیں۔
’’سلیکٹیڈ‘‘ اور ’’سلیکٹر‘‘ کی تو اصطلاح ہی بلاول زرداری کی وضع کردہ ہے۔ پیش نظر یہ امر بھی رہے کہ نواب ثناء اللہ زہری تو 2018ء کے عام انتخابات کے بعد ہی سے گوشہ نشیں ہو گئے تھے۔ وہ پارٹی کے اندر کوئی فعال کردار ادا کرنے سے معذور رہے ہیں۔ پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ نواب زہری کے چھوٹے بھائی میر نعمت اللہ زہری نواز لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ 25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں صوبائی نشست پر آزاد حیثیت سے لڑ کر کامیاب ہوئے تو سینیٹ کی نشست چھوڑ دی۔ اور معاً تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ نواب زہری کے برادر نسبتی آغا شاہ زیب دُرانی بھی ن لیگ کے سینیٹر ہیں مگر وہ کسی موقع پر بھی پارٹی کے کام نہیں آ سکے ہیں۔ خواہ سینیٹ انتخابات ہوں یا چیئر مین سینیٹ کا انتخاب۔ جو تحریک انصاف، بلوچستان عوامی پارٹی یا مقتدرہ نے کہا ہے وہی کیا ہے۔ ان سینیٹر صاحب کے ایک بھائی آغا شکیل دُرانی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ یعنی یہ نشیب و فراز نواب ثناء اللہ زہری کی منشاء کے بغیر ممکن نہ تھے۔ گویا یہ اُن کی ن لیگ سے راہیں جدا کرنے کی مثالیں ہیں۔ جبکہ اس لمحہ محض جلسہ میں مدعو نہ کرنے یا فوج کے خلاف بولنے کی حُجت اپنا لی ہے۔
مسلم لیگ ن نے نواب زہری کو صوبے میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ جبکہ نواب زہری کو اپنی قیادت کے بجائے دوسرے حلقوں کی رضا مندی زیادہ عزیز تھی۔ بلوچستان میں اڑھائی اڑھائی سال حکومتوں کا فارمولا بھی ن لیگ کی سیاسی مجبوری تھی۔ اور کیا یہ عنایت معمولی ہے کہ نواب زہری اگلے اڑھائی سال کے لیے وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھا ئے گئے؟۔ نواب تو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا بھی نہ کر سکے۔ پارٹی اعلیٰ قیادت اور اتحادیوں کے کہنے کے باوجود اسمبلی اجلاس سے محض چند لمحے قبل منصب سے مستعفی ہو گئے۔ اور بڑی خاموشی سے گھر چلے گئے۔ دنیا جانتی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی پُشت پر کون تھے۔ مگر جنرل عبدالقادر یا نواب ثناء اللہ زہری اسٹیبلشمنٹ تو کیا عبدالقدوس بزنجو اور دوسرے باغی لیگی اراکین اسمبلی کے خلاف بھی نہ بول سکے۔ کہ جنہوں نے ان کی حکومت کے خلاف کھلم کھلا سازش کی۔ اتحادی جماعت پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو (مرحوم) البتہ سازش میں شریک جلی و خفی کرداروں کا نام لے کر بولے ہیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ عدم اعتماد کی سازش میں پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین آصف علی زرداری اہم مہرہ تھے۔ اور حال یہ کہ نواب زہری اور عبدالقادر بلوچ کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں۔
اُدھر یہ حضرات علٰیحدہ ہوئے اور اگلے ہی لمحے پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر حاجی علی مدد جتک آصف علی زرداری کا پیغام لے کر عبدالقادر بلوچ کو شمولیت کی دعوت کا پیغام دینے پہنچ گئے۔ نواب زہری اور عبدالقادر بلوچ اصول کی سیاست کرتے ہیں تو انہیں پہلے آصف علی زرداری سے عدم اعتماد کی تحریک کی سازش کا حساب لے لینا چاہیے تھا۔ غرض لیگی قیادت کو پی ڈی ایم جلسہ میں ثناء اللہ زہری کی شرکت کے معاملے کو باہمی طور کسی منطقی نتیجے تک لے جانا چاہیے تھا۔ تاکہ نِزاع کی صورت نہ بنتی۔ بہر حال اب نون لیگ کو چاہیے کہ نواب زہری کو بلوچستان اسمبلی کا رکن رہنے دے۔ انہیں ڈی سیٹ کرنا درست نہیں ہو گا۔ ویسے بھی یہ حلقہ نواب زہری کا اپنا ہے، ان کو ہی پھر سے کامیاب ہونا ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم میں تحریک چلا رہی ہے، عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری کو شمولیت کی دعوت دینا بھی معیوب سمجھا گیا ہے۔ سو مذکورہ اجتماع میں نواب زہری کی جانب سے دُشنام طرازی اور ناشائستہ گفتگو ہوئی۔ سردار اختر مینگل اور میاں محمد نواز شریف پر کی گئی حرف گیری صوبے کے سیاسی و عوامی حلقوں میں ناپسندیدگی کا اظہار ہوا ہے۔ اگر کبھی سردار اختر مینگل کی جانب سے بھی کچھ بولا گیا ہے بھی غیر مناسب و نا شائستہ سمجھا گیا ہے۔ سیاست میں اختلاف رائے ضرور ہونی چاہیے مگر ایسی گفتگو نہ ہو کہ جس سے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں۔ آخری بات یہ کہ عبدالقادر بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کا بیس اضلاع کے پارٹی رہنمائوں کا پارٹی سے انخلا کا دعویٰ ہے۔ مگر سچ میں ہم جیسے لوگ بھی نہیں جانتے کہ صوبے میں قادر بلوچ اور نواب زہری کے ساتھ اور کون موثر و نمایاں شخصیات ہیں جو نواز لیگ چھوڑ چکی ہیں؟