تعلیمی ادارے 26 نومبر سے بند کرنے کا اعلان ، سندھ کی مخالفت

233

 

اسلام آباد/لاہور/کراچی(نمائندگان جسارت + اسٹاف رپورٹر)وفاقی حکومت نے ملک بھر میں 26 نومبر سے 10 جنوری تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کردیا۔پیر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں وزرائے تعلیم کا اجلاس ہوا جس میں ملک اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں کورونا کیسز کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے بتایاکہ26 نومبر سے اسکول، کالجز، یونیورسٹیز اور ٹیوشن سینٹرز کوبند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ 26 نومبر سے 24 دسمبر تک تعلیمی ادارے بند رکھیں جائیں گے اور 25 دسمبر سے 10 جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی جس کے بعد 11 جنوری سے تعلیمی ادارے دوبارہ کھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں آن لائن نظام ہے وہاں آن لائن تعلیم جاری رہے گی اور جہاں آن لائن نظام نہیں ہوگا وہاں اساتذہ ہوم ورک دیں گے جب کہ اس حوالے سے فیصلے
صوبائی حکومتیں کریں گی۔شفقت محمود کاکہنا تھا کہ دسمبر میں ہونے والے تمام امتحانات کو 15 جنوری تک ملتوی کردیا گیا ہے تاہم انٹری لیول کے امتحانات معمول کے مطابق جاری رہیں گے اور انہیں ایس او پیز کے ساتھ منعقد کیا جاسکتا ہے جب کہ یونیورسٹیز کے ہاسٹلز میں دور دراز علاقوں سے آنے والے ایک تہائی طلبہ کو رہنے کی اجازت ہوگی۔ وفاقی وزیر تعلیم کے مطابق تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ دینی مدارس پربھی لاگوہوگا، تعلیمی اداروں کی بات کرتے ہیں تواس سے مرادتمام تعلیمی ادارے ہیں،دینی مدارس کاشماربھی تعلیمی اداروں ہی میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ایک جائزہ اجلاس ہوگا جس میں بیماری کی صورتحال کو دیکھا جائے گا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔شفقت محمودکا کہنا تھا کہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ جن میں روزانہ کلاسز نہیں ہوتیں وہ چلتے رہیں گے جب کہ سینئر میڈیکلز کی ٹریننگز جاری رہیں گی۔انہوںنے مزید کہا کہ سفارش کررہے ہیں بورڈ کے جو امتحانات مارچ یا اپریل میں ہونا تھے انہیں مئی جون میں لے جایا جائے تاکہ جب تعلیمی ادارے کھلتے ہیں تو طلبہ کو کورس ورک مکمل کرنے کا وقت مل جائے، یہ بھی تجویز ہے کہ نیا تعلیمی سال اپریل کے بجائے اگست تک لے جایا جائے اور گرمیوں کی چھٹیاں کم کردی جائیں تاکہ تعلیم کے فرق کو پورا کیا جاسکے۔ادھر وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اس سال کسی صورت بغیر امتحانات کے کلاسز میں بچوں کو پروموٹ نہیں کیا جائے گا، ہماری تجویز ہے کہ تمام تعلیمی ادارے بند نہ کیے جائیں۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت این سی او سی اجلاس میں سعید غنی نے موقف پیش کیا کہ اگر اسکول بند کرنے ہیں تو پرائمری اسکولز جس میں انرولمنٹ 73فیصد ہے اس کو بند کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ کلاس 6 اور اس سے آگے کی تمام کلاسز کو جاری رکھا جائے، نویں ، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات مئی اور جون میں لینے کا فیصلہ نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ آگے کی صورت حال کو دیکھ کر بعد میں فیصلہ کیا جائے، چھوٹے نجی اسکولز کو مالی ریلیف کے لیے بینکوں سے آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ قرضوں پر سود وفاقی حکومت ادا کرے تاکہ یہ نجی اسکولز بدحالی کا شکار نہ ہوں، اسکولوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تمام غیر تدریسی سرگرمیاں اس سال مکمل طور پر تعلیمی اداروں میں بند کرنی چاہیئں، جو اسکولز آن لائن تعلیم دینا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم دیتے رہیں۔ سعید غنی نے یہ بھی کہا کہ والدین بچوں کو اسکول نہ بھیجنا چاہیں توان بچوں کے خلاف ایکشن نہ لینے کا پابند کیا جائے۔علاوہ ازیں کمشنر کراچی افتخارشالوانی نے آج سے تمام ریسٹورنٹس میں انڈور ڈائننگ پر پابندی عا ید کردی ہے، جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ، ریسٹورنٹس کو صرف اوپن جگہ پر ڈائننگ کی اجازت ہوگی،ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت جاری کر دی گئیں ، کمشنر کراچی نے ہدایت جاری کیں ہیں کہ ڈپٹی کمشنرز احکامات پر عمل کرائیں، کمشنر کراچی کا کہنا ہے کہ اس قدام سے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔دوسری جانب وزیر تعلیم پنجاب مراد راس نے کہا ہے کہ پنجاب میں اسکولوں کی بندش کے باوجود اساتذہ کو ہفتے میں 2 دن پیر اور جمعرات کو اسکول آنا ہو گا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اسکول بند نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کورونا کے بڑھتے کیسز کے باعث یہ فیصلہ کرنا پڑا۔مراد راس کا یہ بھی کہنا تھاکہ کورونا میں صرف اسکول بند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ بچوں کے پارکوں اور شاپنگ مالز میں داخلے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔علاوہ ازیں این سی اوسی کی جانب سے جاری اعداد وشمارکے مطابق ملک بھرمیں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 ہزار756 افراد کورونا وائرس کا شکارہوئے جب کہ مزید 34 اموات سامنے آگئیں جس کے بعد کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 3 لاکھ 76 ہزار 929 جب کہ مجموعی اموات کی تعداد 7 ہزار 696 ہوگئی۔ادھر کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے جگہ کم پڑنا شروع ہوگئی جس کے بعد شہری نجی اسپتالوں میں جانے پرمجبورہوگئے جہاں داخلے سے قبل لاکھوں روپے وصول کیے جارہے ہیں۔انڈس اسپتال میں 16 بیڈزپرمشتمل وارڈ میں تمام بیڈزمریضوں سے بھرگئے ہیں۔ جناح اسپتال میں کورونا مریضوں کے لئے 90 بیڈز مختص ہیں، جناح میں 24 ایچ ڈی یوبیڈذ اور12 وینٹلیٹرزبھی موجود ہیں، سول اسپتال میں 141 بیڈزبشمول ایچ ڈی یو، آئی سی یو مختص ہیں جن میں سے 88 پرمریض زیرعلاج ہیں۔ سول میں 7 وینٹیلٹرز پرمریض زیرعلاج ہیں جبکہ ایک خالی ہے۔لیاری جنرل اسپتال میں 60 بیڈڈ وارڈ بشمول آئی سی یو اورایچ ڈی یومختص اورلیاری جنرل اسپتال میں 10 وینٹیلیٹرز بھی موجود ہیں۔ ڈاؤ اسپتال میں بھی 30 بیڈز کا وارڈ فل ہوگیا جب کہ نیپا اسپتال کے 66 بیڈزمکمل بھرگئے۔ ایکسپوسینٹرمیں قائم فیلڈ آئسولیشن سینٹرمیں 150 بیڈڈ ایچ ڈی یومیں سے 70 پر مریض زیرعلاج ہیں۔ سروسزاسپتال میں 40 میں سے 30 بیڈزمریضوں کے لیے خالی ہے، وینٹیلیٹرزپرکوئی مریض موجود نہیں ہے۔عباسی شہید اسپتال میں 100 بیڈ تیاروارڈ تاحال غیرفعال ہے۔ وارڈ میں آئی سی یو، ایچ ڈی یو اور وینٹی لیٹرزکودھول چاٹنے لگی، صرف آکسیجن کمپریسرنہ ہونے کے سبب 4 ماہ سے وارڈ غیرفعال ہے۔ دوسری جانب ضیاالدین کلفٹن میں 7 جبکہ نارتھ ناظم آباد میں 12 بیڈز بھی بھر چکے ہیں، آغاخان اسپتال کے 30 بیڈز، لیاقت نیشنل اسپتال میں 22 بیڈز کرونا مریضوں کے لیے مختص ہیں۔ایگزیکٹوو ڈائریکٹرجناح اسپتال ڈاکٹر سیمیں جمالی کا اس متعلق کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر خطرناک ہے، مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، ہم اب بھی مریضوں کو داخل کر رہے ہیں، بازاروں اور اسکولوں کو بند ہوجانا چاہیے،اجتماعات پر پابندی لگائی جائے جب کہ ماسک کا استعمال لازمی کیا جائے۔