عالمی یوم اطفال اور معصوم لیہ

121

اقوام متحدہ ہر سال 20نومبر کو عالمی یوم اطفال کے طور پر مناتا ہے، رواں برس کے عالمی دن کا موضوع حقوق اطفال کے تحفظ کی آگاہی کو قرار دیا گیا ہے۔ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی کنونشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اس کنونشن کی جانب سے گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے سرکاری سطح پر جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کے بارے میں یونیسیف کاکہنا ہے کہ گو کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے تیس برس قبل حقوق اطفال کے چارٹر پر ایک برس کے اندر ہی دستخط کر دیے تھے اور اس چارٹر پر عمل درآمد کی کوششیں شروع کر دی تھیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں اور ان میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ 20نومبر کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کا عالمی دن منایا گیا اس دن کی مناسبت سے پورے ملک کی تاریخی عمارات کو نیلے رنگ کے قمقموں سے سجا کر جہاں بچوں کی اہمیت کو اجاگرکیا گیا وہاں ان سرگرمیوں کا مقصد بچوں کو تحفظ اور ان کے حقوق دلانے کے حوالے سے عالمی سطح پر شعور وآگہی پیدا کرنا بھی تھا۔ اس دن بچوں سے متعلق کئی تقریبات منعقد کی گئیں جن میں بچوں کے حقوق اور تحفظ کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی۔
ہم ان دنوں بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے حوالے سے جن مسائل سے دوچار ہیں اس کی مثال شاید کوئی گیا گزرا معاشرہ بھی پیش کرنے سے قاصر ہوگا۔ ہمارے ہاں آج کل بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور ان کو قتل کیے جانے کے جو اندوہناک واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں وہ متعلقہ حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کے لیے ایک بڑ اچیلنج ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد ازاں ان کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں مردان، نوشہرہ، چارسدہ، کشمور کے دل کو دہلا دینے والے حالیہ واقعات کو لوگ نہیں بھول پائے تھے کہ بڈھ بیر پشاور کے نواحی علاقے بالو خیل میں سات سالہ معصوم بچی لیہ کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعے نے پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ بالوخیل کے قریبی قبرستان سے علی الصباح ملنے والی مسخ شدہ لاش جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ لا ش ایک روز قبل لاپتا ہونے والی سات سالہ لیہ نامی بچی کی ہے جسے ایک دن قبل اغواء کیا گیا تھا۔ وقوعے سے ایک روز قبل جب یہ بچی گھر نہیں پہنچی تو اس کے والدین نے اسے ادھر ادھر ڈھونڈنے میں ناکامی کے بعد مقامی تھانے میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی جب کہ گمشدگی کی رات بھی وہ اپنے لخت جگر کو رات بھر ڈھونڈتے رہے۔ اگلی صبح ایک مقامی شخص کی نشاندہی پر جب لیہ کے والدین دیوانہ وار قریبی قبرستان پہنچے تو وہاں پہنچ کر وہ اپنے ہوش وہواس کھو بیٹھے کیونکہ ان کے سامنے ایک ایسی لاش پڑی ہوئی تھی جس کا نوے فی صد بدن جل کر بری طرح مسخ ہو چکا تھا البتہ اس کا چہرہ چونکہ پوری طرح جھلسنے سے بچ گیا تھا تو اس کے غمزدہ والدین نے اسے اس کے چہرے سے پہچانا۔
لیہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے ہماری معاشرتی بے حسی اور اخلاقی گراوٹ کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ ایک معصوم بچی کی لاش کی بے حرمتی اور مبینہ طور پر اسے جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد اپنے جرم کو چھپانے کے لیے اس معصوم کی لاش کو جس درندگی سے جلایا گیا وہ پوری انسانیت کے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اردگرد یہ انسانیت سوز واقعات اس تسلسل کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں اور آخر اس ظلم اور درندگی کا ذمے دار کون ہے۔ دراصل اس کی بنیادی وجہ ہمارا کمزور اور بوسیدہ قانون ہے جو کمزور اور غریب کو تو گرفت میں لانے کے لیے شیر ہے لیکن یہ طاقتوروں، ظالموں اور وحشیوں کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوتا آیا ہے۔ یہ وہ اندھا قانون ہے جو اب تک ملک کے طول وعرض میں درندگی کے شکار ہونے والے لیہ جیسے ہزاروں معصوم جانوں کو انصاف دلانے سے قاصر ہے۔
معصوم زینب کے سفاک قاتل کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد ایک امید پیدا ہو چلی تھی کہ یہ فیصلہ معاشرے میں بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشددکی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگا لیکن متعلقہ اداروں نے حکومتی اور معاشرتی دبائو پر اس کیس میں جو چابکدستی دکھائی اس کا تسلسل اسی نوع کے دیگر کیسز میں نہیں دکھائی گئی جس کا نتیجہ آئے روز سامنے آنے والے جنسی تشدد کے نت نئے کیسز ہیں۔ یہاں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر بڈھ بیر میں چند روز قبل ایک چار سالہ بچے کے قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج عین اس دن ہمیں لیہ کے ساتھ وقوع پزیر ہونے والا واقعہ نہ دیکھنا پڑتا جس دن پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جارہا تھا۔ دریں اثناء ہفتہ کے روز وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف سینیٹر بیرسٹر محمد فروغ نسیم، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری اور بیرسٹر علی ظفر کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان نے زیادتی کے مجرموں کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے آرڈیننس تین روز میں نافذ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس معاملہ کو مزید نہ لٹکایا جائے اور اس کو اگلے تین سے چار روز میں نافذ کیا جائے لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت اس مجوزہ آرڈیننس کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کو بھی قومی جذبے سے ہرحال میں یقینی بنائے گی۔