اسرائیلی وزیراعظم اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خفیہ ملاقات اور اس کی تردید عالم اسلام میں تشویش کے ساتھ پڑھی اور سنی گئی ہے۔ یہ خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں اس سے پہلے تو اسی کو ٹرمپ کے الیکشن سے جوڑا جا رہا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔ اس کام کے لیے سازشیں تو عرصے سے جاری تھیں۔ امت مسلمہ کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے بعد اب یہ ایجنڈا بزور قوت نافذ کیا جا رہا ہے۔یہ واضح رہنا چاہیے کہ امت مسلمہ اور مسلم حکمران دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ امت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کبھی حامی نہیں رہی اور کمزور اور مغرب پرست یا ایجنٹ حکمران ہر وقت ہر غلط چیز قبول کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی یہ کوشش کی گئی اور ایک مرتبہ پھر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم عالمی لہر کی طرح چلائی جائی گئی ہے۔ اس مرتبہ نہایت منظم طریقے سے اسلامی ملکوں کی حکومتوں کو گھیر کر ایک دوسرے کے ذریعے دبائو، لالچ اور دھمکی کے طریقے اختیار کرکے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی ولی عہد سے نیتن یاہو کی ملاقات کی تردید تو کر دی گئی ہے لیکن اگلے ہی دن اسرائیل نے ان ممالک کی فہرست سے سعودی عرب کو نکال دیا ہے جن کے لوگوں کی اسرائیل آمد پر ان کے لیے قرنطینہ لازمی تھا۔ اب یہ سوال اہم ہے کہ سعودی عرب کے کتنے لوگ اسرائیل جاتے ہیں کہ اسرائیل کو یہ شرط ختم کرنی پڑی درحقیقت یہ اعلان اس امر کا اظہار ہے کہ سعودی عرب کے رویے میں نرمی ہے اس لیے اسرائیل نے نرمی کا اعلان کیا ہے۔ اب اسرائیلی وفد سوڈان پہنچا ہے اور خبر یہ ہے کہ نیتن یاہو بحرین جائیں گے۔ البتہ اب امریکی صدر اس معاملے میں سرگرم نظر نہیں آتے۔ ٹرمپ نے اپنے حصے کا کام کر لیا امت مسلمہ میں دراڑ پڑ چکی ہے اور اسرائیل کو اس میں نقب لگا کر گھسنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اصل مسئلہ سعودی عرب ہے پاکستان نہیں، کیونکہ سعودی عرب ایسا ملک ہے جس کی وجہ سے کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے۔ پاکستان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہاں کوئی تبدیلی لانی ہو یا بین الاقوامی ایجنڈا تسلیم کروانا ہو تو اس کے مطابق اپنی پسند کا حکمران لا کر بٹھا دو پھر جو چاہو منوا لو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کو مسلط کرنے کا مقصد امریکا کو افغانستان کے لیے راہداری دینا اور اس کے احکامات پر افغانستان میں اسلام پسندوں کا صفایا کرنا تھا۔ آزاد خیالی اور مخلوط میریتھن وغیرہ تو اضافی پیکیج تھے۔ سب سے پہلے پاکستان بھی لالی پاپ تھا۔ البتہ پاکستانی قوم کی اکثریت نے جنرل پرویز کی روشن خیالی اور مخلوط میریتھن قسم کے شعبدوں کو قبول نہیں کیا۔ اسی لیے یہ توقع ہے کہ امت مسلمہ تو اسرائیل کو قبول نہیں کرے گی لیکن اس پر مسلط حکمرانوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے حکمران کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن امت اسے ہرگز نہیں مانے گی۔ اس طرح کی سوچ پیدا ہونے بلکہ پیدا کرنے کا منصوبہ نافذ کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ کو اسلامی تحریکوں نے خبردار کیا ہے ان تحریکوں ہی نے یہ بات منتقل کی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ اسے ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہی بات بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمائی تھی کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے امت مسلمہ کے قلب میں گھسایا گیا ہے، پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکمران بانی پاکستان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ ان ہی کے نام پر ان کے اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اپنے حکمرانوں کے غلط فیصلوں پر امت مسلمہ کیا ردعمل دیتی ہے۔اسرائیل تسلیم کرانے کی مہم میں تیزی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس قسم کے شوشے بار بار چھوڑے جائیں تاکہ امت مسلمہ میں اسرائیل موضوع گفتگو بن جائے۔ بار بار یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان آیا کہ تب آیا۔ بار بار تردید کرکے عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح مستقل ابہام کی کیفیت پیدا کرکے رکھی ہوئی ہے۔ اور جب یہ فیصلہ ہوگا تو اچانک ہوگا لیکن نفسیاتی طور پر یہ بات امت مسلمہ کے ذہنوں میں بٹھائی جا چکی ہوگی کہ یہ حکمران تو ایسا کرنے ہی والے تھے۔