پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو معرض وجود میں آیا پاکستان کے قیام میں اسلامی نظریہ حیات کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہے کیونکہ برصغیر کے مسلمانوں نے ایک اسلامی مملکت کے قیام کی خاطر تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر فرد کی دلی خواہش تھی کے وہ ایک ایسی مملکت کے قیام میں نہ صرف حصہ لے بلکہ اس مملکت کا حصہ بنے جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق ریاستی نظام تشکیل دیا جائے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدا ئی مسا ئل سے نمٹنے کے بعد پاکستان کو باقاعدہ ایک آئینی ریاست بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ ان اقدامات میں سب سے اہم ترین دستاویز قرار داد مقاصد ہے اس کے بعد پاکستان میں آئینی ارتقاء کی ایک طویل ترین جدو جہد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر ۱۹۷۳ء میں جا کر پاکستان میں ایک مستقل آئین کی تشکیل ممکن ہو سکی۔ اس سے قبل ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء میں پاکستان کے لیے آئین تشکیل دیے گئے لیکن یہ آئین پاکستان کے سیاسی نظام کو مستحکم کرنے میں پائیدار ثابت نہ ہو سکے اور اس دوران ملک کو کئی سانحات کا سامنا کرنا پڑا جن میں پاکستان اور بھارت کی جنگیں، مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی، ملک میں متعدد بار مارشل لا کا نفاذ اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال وغیرہ بڑی اہم ہیں۔ ۱۹۷۳ کے آئین کے نفاذ کے بعد مملکت پاکستان میں ایک باقاعدہ سیاسی نظام حکومت کے لیے راہ ہموار ہوئی لیکن سیاسی عدم تربیت کی وجہ سے ملک کو سیاسی عدم استحکام کی کیفیت کا سامنا رہا جو آج تک برقرار ہے۔
اگر ہم دنیا میں قائم جدید جمہوری ریاستوں کا جائزہ لیں تو ہمیں تقریباً ہر جگہ ایک مستحکم سیاسی نظام دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے جمہوری ریاستوں میں انتشار اور بد اعتمادی کی فضاء پیدا نہیں ہوئی جو پاکستان میں عام ہے اور حکومت پالیسیوں پر عملدرآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے شاید اس کی وجہ آئینی تقاضوں سے ناواقفیت اور نظام کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہے عام طور پر مشاہدے میں ہے کہ عوامی اور ملکی مفادات کے برخلاف اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے آئینی ترمیمات کا سہارا لیا گیا اور عوامی نمائندوں نے بھی ملکی اور قومی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پارٹیاں تبدیل کرنے کی روش کو پروان چڑھایا اس طرح جمہوری کلچر کو شدید نقصان اٹھانا پڑا سیاست دانوں کی مفاد پرستی نے ملک میں ایک مضبوط جمہوری نظام کی تشکیل میں رکاوٹیں پیدا کیں جس کی وجہ ملک کو بے پناہ سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے اس کے برعکس برطانیہ کے جمہوری نظام کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ برطانیہ کے جمہوری نظام میں آئینی نظام روایات اور رسم و رواج پر قائم اور ان ہی روایات کی بنیاد پر بادشاہ پارلیمنٹ اور کابینہ کے تعلقات قائم ہیں۔
حکومت دارالعوام کے اعتماد پر کام کرتی ہے اور جمہوری حقوق کے نفاذ کے لیے عملی کوششیں کرتی ہے۔ برطانیہ کے جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ایک خود مختار مقتدر اعلیٰ ہے۔ برطانیہ کا عدالتی نظام بھی پوری طرح سے آزاد اور خودمختار ہے، امریکا میں سیاسی نظام میں صدر کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور منتخب صدر عوامی فلاح وبہبود کے لیے اپنی خدمات انجام دیتا ہے اور اس کے لیے اس کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں، سوئزر لینڈ کی جمہوریت یورپ کی سب سے قدیم جمہوریت ہے یہاں وفاقی اسمبلی کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں یہ عوام کی فلاح و بہبود کے متعلق فیصلے کرتی ہے۔
فرانس کی پارلیمنٹ فرانسیسی جمہوری نظام کا ایک خود مختار ادارہ ہے اور یہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا ہے جمہوریہ ترکی میں عاملہ اور وزراء کی کونسل پوری ذمے داری کے ساتھ جمہوری اصولوں کے تحت ریاست اور عوام کی خدمت کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے، عوامی جمہوریہ چین میں کیمونسٹ پارٹی نے چین کا نظام حکومت چلانے اور چین کو اقتصادی لحاظ سے پوری طرح مستحکم کرنے کا پورا انتظام کیا ہے۔
جدید جمہوری ریاستوں میں یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ حکومت کو ریاست اس کے عوام اور اس کی اقتصادی ترقی کا مکمل خیال رکھنا ہے۔ ان تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر پاکستان کے قیام کے وقت سے لے کر اب تک جائزہ لیا جائے تو صرف سیاسی ابتری، مفاد پرستی اور اقتدار سے چمٹے رہنے خواہش نظرآتی ہے یعنی ماضی سے حال تک اقتدار کی راہداریوں میں گھومنے والے تمام ہی عناصر نے ملک، قوم اور جمہوری اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے مراکز اقتدار کو اپنے قبضے میں رکھنے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے صرف اپنے آپ کو ملک کی اہم ضرورت سمجھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو جدید جمہوری ریاستوں کے تقاضوں کے مطابق حکومت کا نظام پائیدار ہو سکا ہے اور نہ ہی حکومت کے لیے نمائندوں کے انتخاب کے طریقہ ٔ کار میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں مفاد پرستی کی سیاست پر عمل پیرا ہیں اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا موثر ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مخصوص علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے اپنے موثر حلقے قائم ہیں اور عوام بغیر کسی سیاسی شعور اور امیدواروں کی سیاسی کارکردگی کے اپنی سیاسی وفاداریوں کو نبھاتے ہیں جس کی وجہ سے نااہل افراد کو بھی الیکشن میں کامیاب ہونے کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں اور ایسے افراد بھی عوامی لیڈر ہونے کے دعوے دار بن کر سیاسی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن سیاسی تربیت اور عدم شعور کی وجہ سے قومی، بین الا قوامی مسائل اور معاملات سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہونے کی بناء پر ملک اور قوم کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور صحت کی سہولتیں عوام کی پہنچ سے دور ہیں اور حال یہ ہے کہ بڑے بڑے نامور افراد نے عوام کے چندوں کے پیسوں سے اسپتال تو قائم کردیے ہیں لیکن ان میں اس ملک کے غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے یعنی عوامی خدمت کے بڑے بڑے نام اپنی ذات کے لیے عوامی چندہ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے اس طرح کرپشن کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ برسوں سے جاری ہے ظاہر سی بات ہے کہ جمہوری ادارے پوری طرح پروان ہی نہیں چڑھ سکیں گے اور ان اداروں میں منتخب ہو کر آنے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہو گا کہ وہ عوامی نمائندے ہیں اور ان کا فرض ہے کہ اداروں کی بہتری اور بھلائی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک کہ تمام ادارے عوام کی فلاح و بہبود کا کام کریں ایک جمہوری نظام کا خاصہ ہی یہ ہے کہ اس کے ارکان اداروں کو بہتر طور پر فعال کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور جب جمہوری ادارے آئین کی روح کے مطابق عوامی بھلائی اور ملک اورقوم کے لیے کام کرتے ہیں پھر احتساب جیسے ادارے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ ایک عوامی نمائندے کا اصل کام ہی یہی ہے کہ جہاں بھی کرپشن کی پرورش ہو رہی اور ان نرسریوں کو ختم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کرے لیکن ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عوامی نما ئندوں نے آج تک اپنے اس کردار کو نہ تو سمجھا اور اور نہ جاننے کی کوئی کوشش کی ہے اور شاید اسی وجہ سے ملک کہ تمام ادارے مادر پدر آزادی کے ساتھ کام کررہے ہیں اور ہر ادارے نے اپنی اجارہ داری بنالی ہے
اور اس کی وجہ عوامی نمائندوں کی کم فہمی ہے ورنہ جمہوری معاشروں میں تمام ادارے اور افراد عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور جن معاشروں میں عوامی نمائندے اپنی اہمیت اور ذمے داریوں کو سمجھتے ہیں وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں کیونکہ جب کسی مملکت کے ادارے عوام کے سامنے جواب دہ ہو جائیں تو پھر ملک اور قوم کا سرمایہ عوام کی بھلائی اور بہتری کے لیے خرچ کیا جاتا ہے لیکن اگر عوامی نمائندے اپنی ذمے داریوں سے آگاہ نہ ہوں تو عوام کا استیصال ہوتا ہے ایسے معاشروں میں عوامی بے چینی بڑھ جاتی اورکرپشن کو فروغ حاصل ہوتا ہے جرائم کی شرح میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے بڑھتے ہوئے مسائل سے گھبرا کر لوگ خودکشی کرنے لگتے ہیں اس طرح پتا چلتا ہے کہ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں اس کی بڑی وجہ معاشرتی بے حسی ہوتی ہے۔
پاکستان کے سیاسی اور جمہوری نظام کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو تاکہ ہمارا سیاسی نظام ایک طویل سفر طے کرنے کہ بعد بھی جمہوری نہیں بن سکا کچھ مخصوص افراد اور خاندان ہیں جو سیاست کو اپنی منزل سمجھتے ہیں اور وہی گھوم پھر کر اس ملک کے سیاسی نظام میں اپنا حصہ ڈال کر اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کر لیتے ہیں ہمارے ملک میں یہ قانون تو ضرور بنا کہ صرف تعلیم یافتہ افراد ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیںاور ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے وزیر اعظم کے لیے قانون سازی کی گئی لیکن اس کو بھی پھر تبدیل کر دیا گیا لیکن ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کہ حوالے سے حقیقی قانون سازی اب تک نہیں ہوئی۔ ہمارے سیاسی نظام میں تو عوامی نمائندے برس ہا برس سے اپنی ناقص کارکردگی کے باوجود بھی الیکشن میں منتخب ہو کر عوامی نمائندگی کی دعوی داری کر رہے ہیں اب عصر حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی نظام کو منظم اور مستحکم کیا جائے اور ساتھ ہی اس نظام میں بہتری لانے کے لیے قومی، صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کے لیے یونیورسٹی کی سطح کی سیاسیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ حیرتناک بات ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا خواہ وہ نا خواندہ ہی کیوں نہ ملک کے قانون سازی کے ادارے میں بطور رکن نظر آتا ہے جب کہ سیاسی مسائل سمجھنا اور انہیں میرٹ کے مطابق حل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اللہ ہمیں عقل سلیم عطا کرے کہ ہم علم و عمل اور عقل شعور اور فلسفہ سیاست سے نابلد سیاست دانوں سے نجات حاصل کر سکیں اگر جدید جمہوری ریاستوں کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں نافذ شدہ جمہوریت کا جائزہ مو جودہ حالات تک لیا جائے تو اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان میں درحقیقت کوئی بھی جمہوری اصول سیاسی نظام کا حصہ نہیں ہے بلکہ حکومت کا ڈھانچہ تیار کرنے کے لیے صرف جمہوری اصولوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حکومت کی تشکیل با اثر سیاسی افراد کے ہاتھ میں ہے وہ باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے ہر مرتبہ ایک نئی حکومت تشکیل کر لیتے ہیں اور پھر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس ملک کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔