وفاقی کابینہ نے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کے لیے بلاتاخیر آرڈی نینس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس آرڈی نینس کا مقصد معاشرے کو محفوظ ماحول دینا ہے اور زیادتی کے مجرموں کو عبرت ناک سزا دینا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر قانون نے کابینہ میں خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے لیے آرڈی نینس کا مسودہ پیش کیا۔ انسداد جنسی زیادتی بل 2020 کے تحت جنسی زیادتی کے مجرموں کو مستقل یا عارضی طور پر نامرد کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ اجلاس میں زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی پر بحث کی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کابینہ اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ایسے جرائم کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیے جاسکتے۔ یہ حقیقت ہے کہ بچوں اور خواتین کے خلاف ہولناک جرائم کی کثرت ہوگئی ہے اور حکومت و معاشرہ دونوں جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ایسے ایسے ہولناک واقعات پیش آرہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جرائم کو روکنا ایک طرف ہمارا ریاستی نظام نہ مجرموں کو سزا دینے میں کامیاب ہے نہ کمزوروں اور بے کسوں کی دست گیری کرسکتا ہے۔ واقعات کی تعداد بے شمار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے ابتدائی طور پر کیسٹریشن کے قانون کی طرف جانا ہوگا، بعض وزرا نے زیادتی کے مجرمان کو پھانسی کی سزا کے قانون کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں حدود اللہ کے نفاذ سے گریز کیا گیا اور ایک طاقتور اقلیت لیکن موثر مغرب زدہ طبقے نے حدود اللہ کے نفاذ کے خلاف مہم چلائی۔ طویل عرصے تک شرعی سزائوں کو وحشیانہ قرار دے کر توہین شریعت کی گئی۔ یورپی یونین نے سزائے موت کے قانون کے خاتمے کے لیے مسلسل دبائو ڈالا لیکن اب یہ لوگ خود سخت سزائوں کی طرف جارہے ہیں۔ سخت سزائوں کی قانون سازی سے بھی جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک پولیس اور تفتیشی اداروں کو دیانت دار نہ بنایا جائے۔ پاکستان کا ریاستی نظام طاقتوروں اور دولت مندوں کو سزا دینے میں ناکام ہے۔ عمران خان مسلسل ریاست مدینہ کی پیروی کی بات کرتے ہیں انہیں حدود اللہ کے نفاذ اور شرعی سزائوں کی بات کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ مجرموں کو سزا دیتے وقت ایک گروہ موجود رہے اور تمہیں مجرموں سے ہمدردی نہ ہو، سرعام شرعی سزائوں کے نفاذ کے بغیر مجرموں میں خوف پیدا نہیں ہوسکتا۔ عمران خان نے یقین دلایا ہے کہ خواتین پولیسنگ، تیز رفتار مقدمات کی سماعت اور گواہوں کا تحفظ قانون کا بنیادی حصہ ہے، متاثرہ خواتین اور بچوں کی شناخت اور تحفظ کا خیال رکھا جائے گا تا کہ متاثرہ خواتین یا بچے بلاخوف و خطر اپنی شکایات درج کراسکیں، لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟