کورونا سے بچاؤ کے اقدامات !

160

حکومت سندھ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کل بھی غیر معمولی فعال تھی اور آج بھی اسمارٹ و مائکرو لاک ڈاؤن کے ساتھ مختلف اقدامات کررہی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کی جانب سے سخت اقدامات و انتظامات کے باوجود کورونا پہلے مرحلے کے بعد اب دوسرے فیز میں داخل ہوگیا۔ دنیا بھر میں کورونا سے بچاؤ کے لیے جو بھی کچھ کیا گیا اس سے اور اس کے نتائج سے سب ہی واقف ہیں۔ لیکن سب نے صوبہ سندھ میں بھی دیکھا اور خوب دیکھا کہ یہاں کورونا سے بچاؤ کے لیے اقدامات کا ماہ محرم میں تعطل رہا۔ گلیوں سڑکوں اور محلوں میں حالات معمول پر تھے تمام مساجد اور امام بارگاہوں میں اجتماعات پر لگائی گئی پابندیاں ختم کردی گئیں تھیں محرم کی مجالس اور جلوس برسوں پرانی روایت کے مطابق نکالے جارہے تھے۔ یہ بھی حکومتی دعوے سامنے آرہے تھے کہ کورونا پر قابو پالیا گیا ہے مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی خبریں آنے لگیں۔ ایسا کیوں ہوا جبکہ اس وائرس پر قابو پانے کی باتیں اور دعوے بھی کیے جاچکے تھے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کورونا کا ’’رونا‘‘ کم از کم ہمارے ملک میں انسانی اذہان کی اور پیداوار اور منصوبہ بندی ہے کہ جب چاہے کورونا کے پھیلاؤ کا شور کرکے اقدامات کرلیے گئے اور جب چاہے ختم کردیے گئے۔ بالکل اسی طرح جیسے منگل کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے واضح فرق کے ساتھ کیے۔
کورونا کا پھیلائو روکنے کے لیے سندھ میں دوبارہ پابندیاں نافذ کردی گئی ہیں۔ صوبائی محکمہ داخلہ نے نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر کی ہدایت کے مطابق پابندیوں اور احتیاطی تدابیر سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ جس کے مطابق تمام کاروباری مراکز اور دکانیں صبح 6بجے سے شام 6بجے تک کھلیں گی جب کہ جمعہ اور اتوار کو مکمل بند رکھنا ہوگی، ان 2دنوں میں صرف ضروری اشیا کی دکانیں کھولنے کی اجازت ہوگی۔ تمام اندرون خانہ اجتماع، بزنس سینٹرز، سنیما، جم خانہ اور کھیلوں کی سرگرمیاں بھی بند کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ریسٹورنٹس میں کھلی جگہ پر کھانا کھانے کی اجازت ہوگی جبکہ رات 10 بجے تک کھانا گھر لے جانے اور ہوم ڈلیوری کی اجازت ہوگی۔ سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فی صد کم اسٹاف رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ اِدھے ملازمین روٹیشن کے تحت گھر سے کام کریں گے حکومتی اعلامیے میں چھت کے نیچے شادی کی تقریبات پر پابندی عاید کی گئی ہے جبکہ شادی کی تقریب کھلے مقام پر کی جا سکتی ہے جس میں صرف 200 مہمانوں کی اجازت ہوگی اس کے علاوہ بوفے سسٹم پر پابندی ہوگی، مہمانوں کو کھانا پیکٹس میں فراہم کرنا ہوگا۔ تقریب رات 9 بجے ختم کرنی ہوگی۔ سبزی منڈیوں میں عمر رسیدہ افراد کا داخلہ ممنوع ہوگا جب کہ تمام سرکاری، نجی دفاتر اور عوامی مقامات پر فیس ماسک پہنے پر سختی سے عمل درامد کرایا جائے، بصورت دیگر جرمانہ عاید کیا جائے۔ ان پابندیوں کا اطلاق 31 جنوری 2021 تک رہے گا۔ مساجد میں حفاظتی اقدامات کے لیے صوبے کے جید علماء کرام کا اجلاس بلائیں گے، سیاست پر پابندی نہیں لیکن سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ کورونا پھیلا تو لوگوں کا روزگار سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت مساجد میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اس قدر حساس کیوں ہے حالانکہ چند روز قبل محرم الحرام کے ماہ میں لوگوں کو جلسے اور جلوس تک کرنے کی اجازت دیدی گئی تھی۔ جس سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ حکومت کو مخصوص فرقے کے لوگوں کی صحت سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہی نہیں بلکہ ان دنوں بھی مساجد میں نمازوں کے اجتماعات پر پابندی لگانے پر غور کیا جارہا ہے مگر مختلف مزارات پر عرس وغیرہ کے اجتماعات پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے پر نہ غور کیا گیا اور نہ ہی کیا جارہا ہے۔ اندرون سندھ کی صورتحال بھی کراچی اور حیدرآباد سے مختلف ہے وہاں نہ لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے اور نہ ہی وہاں کے لوگ کورونا وائرس اور ایس او پی سے واقف ہیں۔ جس سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ سائیں سرکار کی حکمرانی کی رٹ صرف ان دو شہروں تک ہے یا پھر سندھ کے حکمرانوں کو گاؤں اور دیہات میں بسنے والے لاکھوں افراد کی کوئی فکر نہیں ہے۔