عالمی سطح پر نسل کشی سے متعلق تحقیق کرنے والی ایک امریکی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے پچھلے دنوں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بھارت میں موجودہ حکومت کی سرپرستی میں 20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ جینو سائیڈ واچ کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے کہا ہے کہ بھارت میں انسانیت کے خلاف منظم جرائم میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک حالیہ مذاکرے سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ آسام اور کشمیر میں مسلمانوں پر جاری مظالم ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی سے پہلے کا مرحلہ ہے، اگلا مرحلہ ان کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہے جسے جینو سائیڈ یعنی نسل کشی کہتے ہیں۔ تاریخی بابری مسجد کو گراکر اس کی جگہ مندر تعمیر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس مذاکرے سے خطاب میں مختلف ماہرین کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ مسلمانوں پر ظلم سے ان کی سماجی اور اقتصادی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بدترین سلوک پر اس سے قبل بھی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ نریندر مودی کے دوبارہ برسراقتدار آنے سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک ایسا طوفان اٹھایا گیا ہے جس کی ایک معمولی جھلک دہلی میں بڑے پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں نہتے مسلمانوں کے دوہری شہریت کے متعصبانہ قانون کے خلاف احتجاج پر ہونے والے قتل عام کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس قتل ِ عام کے دوران بعض مسلمانوں کو صرف جے شری رام نہ کہنے پر زندہ جلادیا گیا تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت میں انسانیت کے خلاف جرائم منظم انداز میں جاری ہیں۔ ان مظالم کا مقصد مسلمانوں کو سماجی اور معاشی طور پر مفلوج بناکر ان سے ان کی شناخت کے تمام ذرائع مثلاًزبان، تعلیم اور ثقافت چھیننا ہے۔
دراصل وزیراعظم مودی کی اصل پشتیبان جماعت آر ایس ایس عرصہ ٔ دراز سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ آرایس ایس کے نظریاتی پنڈت بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے آئے ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں مسلمانوں سے نفرت کو اس حد تک اُبھارا گیا ہے کہ اب کھلے عام مسلمانوںکو ہندو بنانے یا پھر انہیں بھارتی سرزمین چھوڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ دوسری جانب تاریخ گواہ ہے کہ بھارت پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت میں مسلمانوں نے کبھی بھی ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی حالانکہ ا گر وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا جسے غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن آج سیکولر کہلائے جانے والے بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ عالمی برادری کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو یہ سزا قیام پاکستان کے لیے ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے دی جارہی ہے۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندو بنیے نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے جب کہ دوسری جانب بھارت آج اپنی عددی اکثریت اور جنونی ذہنیت کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف طاقت اور دھونس کا جو منظم استعمال کررہا ہے اس سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ دو قومی نظریہ پیش کرنا، علامہ اقبال کا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا تصور دینا اور قائداعظم محمد علی جناح کا دن رات ایک کر کے قیام پاکستان کے ناممکن کام کو ممکن بنانا سو فی صد درست اور برصغیر کے مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا۔ آج جس مملکت خداداد پاکستان کی آزاد فضائوں میں ہنسی خوشی رہ رہے ہیں اس میں بھارت کے مسلمانوں کے تاریخی کردار اور ان کی لازوال قربانیوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کے اس احسان کا ہم نے اب تک کیا بدلہ چکایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی نسل
کشی کو روکنے کے لیے ہم نے اب تک نہ تو انفرادی سطح پر اور نہ ہی ریاستی سطح پر بھی کوئی قابل ذکر قدم اٹھایا ہے ارو تو اور ہماری بے حسی کی اس سے بڑھ کر انتہا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ان مظلوم ومحکوم کشمیریوں کے لیے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں جو اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کررہے ہیں۔ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان بھارتی مسلمانوں کا پشتیبان اور ان کی جان، مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوگا جب کہ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہہ کر اس کے حصول کو تکمیل پاکستان کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا تھا۔ اس صورتحال کے تناظر میں جینو سائیڈ واچ کی حالیہ رپورٹ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا بھارت کے مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف متوجہ ہو، اس پس منظر میں او آئی سی سمیت عالم اسلام کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہوگا۔
عالمی برادری خاص کر اقوام متحدہ اور اسلامی دنیا کو بھارت کے مسلمانوں کی حالت زار کو انسانیت اور عالم ِ اسلام کے ایک سنگین اور بھڑکتے ہوئے مسئلے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں بھی من حیث القوم بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے بے یارو مددگار مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سفاکانہ رویے کے حوالے سے بے حسی کے کلچر کو ختم کرکے نہ صرف ان کے لیے عالمی سطح پر ایک توانا آواز بننا ہوگا بلکہ قومی سطح پر اپنی صفوں کو درست کرتے ہوئے ان کروڑوں مظلوم انسانوں کو یکجہتی اور بھائی چارے کا ایک واضح پیغام بھی دینا ہوگا۔