کیا ساس بہو کے درمیان خوش گوار تعلقات ممکن ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب عموماً ’’ہاں‘‘ میں نہیں ملتا۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ عموماً بہو کو ساس سے شکایت رہتی ہے اور ساس کو بہو سے۔ اس کے نتیجے میں اگر کسی عورت کے 5 بیٹے ہوں اور ان کی شادی ہوگئی ہو تو کوئی بہو ساس کو اپنے ساتھ رکھنے پر خوش دلی سے آمادہ نہیں ہوتی، اور اگر کسی کو بادلِ ناخواستہ ساس کو اپنے ساتھ رکھنا پڑ جائے تو آئے دن ان کے درمیان کھٹ پٹ ہوتی رہتی ہے۔ بیچارہ مرد دونوں کے درمیان پِستا رہتا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ بیوی کے حق میں کچھ بولے یا ماں کے حق میں؟ چنانچہ اس کی زندگی اجیرن بنی رہتی ہے۔
اگر ساس اور بہو کے تعلقات ’’احسان‘‘ پر مبنی ہوں تو ان میں بڑی حد تک خوش گواری پیدا کی جا سکتی ہے۔ احسان کا مطلب ہے دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینا اور اپنے حق سے کم پر قانع ہوجانا۔ اگر آدمی احسان کی روش پر چلے تو اس کے تعلقات کسی کے ساتھ بھی خراب نہیں ہو سکتے۔
بہو اگر ساس کو اپنی ماں کا درجہ دے اور اس سے اسی طرح برتاؤ کرے جیسے اپنی ماں کے ساتھ کرتی تھی تو ساس کی ڈانٹ ڈپٹ، تنبیہ اور سرزنش اسے بُری نہیں لگے گی۔ کیا شادی سے قبل اس کی ماں نے کبھی اسے کسی بات پر تنبیہ نہیں کی تھی؟ کسی بات پر نہیں ڈانٹا تھا؟ اْس وقت تو اسے برا نہیں لگتا تھا۔
ساس اگر بہو کو اپنی بیٹی کا درجہ دے تو اس کے کسی کام میں خامیاں نہیں نکالے گی، بلکہ اگر اس کا کوئی کام بگڑ جائے تو اسے نظرانداز کرے گی اور اسے سلیقہ سکھائے گی۔ کیا اپنی بیٹی کے کاموں میں وہ خامیاں نکالتی تھی؟ اور اس کا کوئی کام بگڑ جاتا تھا تو اسے نظرانداز نہیں کرتی تھی؟
اس معاملے میں مرد کی ذمے داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اسے سعادت مند اولاد بھی بنے رہنا ہے اور اچھا شوہر بھی ثابت ہونا ہے، اس لیے اسے ماں اور بیوی دونوں سے اپنے تعلقات خوش گوار رکھنے ہیں اور ان دونوں کے آپسی تعلقات میں بھی خوش گواری لانی ہے، اسے بہت حکمت کے ساتھ دونوں کے حقوق پر نظر رکھنی ہے اور ان کی پاس داری کرنی ہے۔
الحمدللہ! میں اس معاملے میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ میری امی جان اور میری اہلیہ دونوں کے تعلقات بہت خوش گوار رہے ہیں۔ میری اہلیہ اپنی ساس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر مرتبہ وطن جانے پر ان کے لیے تحفے تحائف، کپڑے، چوڑیاں، چپل، کنگھی، مٹھائیاں اور کھانے پینے کا سامان لے جانا، وقتاً فوقتاً انھیں اپنے پاس بلاکر رکھنا، ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنا، ان کے کپڑے دھونا، ان کے سر میں تیل لگانا، بالوں میں کنگھی کرنا، چوٹی باندھنا، اور دیگر روز مرّہ کے چھوٹے موٹے کام وہ بہت شوق سے انجام دیتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں میری امی جان انھیں ڈھیر سی دعائیں دیتی تھیں۔ ابتدا میں وہ اپنی بہو کو گود ہری ہونے کی اور بعد میں ہمیشہ خوش و خرم رہنے کی دعا دیتی رہتی تھیں۔ ان کی زبان ہمیشہ دعاؤں سے تر رہتی تھی اور اللہ کا شکر ہے کہ ان کی دعاؤں کے طفیل ہم لوگ پُر مسرّت ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔