شرَفِ عالم
میں: ہماری آج کی گفتگو کا یہ کیسا عنوان ہے، اب کیا حادثہ ہوگیا، پہلے ہی دکھ کم ہیں کہ تم حادثوں اور سانحوں کی داستان سنانے بیٹھ گئے۔ خوشیوں کی بات کرو، ہنسنے ہنسانے کی بات کرو۔
وہ: حضرت ذرا تحمل سے پہلے سن تو لیںکہ میں کیا بات کررہا ہوں۔
میں: جی میں ہمہ تن گوش ہوں، سنائیے کیا حادثہ رونما ہوا ہے؟
وہ: کوئی ایک ہو تو بتائوں گزشتہ چند برسوں میں ہماری مادری زبان اردوکے نجانے کتنے الفاظ مرگئے، کتنی تراکیب دم توڑ گئیں، روز مرہ اور محاوروں کا استعمال متروک ہوا، اظہار ِ بیان کی خوب صورتی اور تحریر کی شائستگی ماند پڑ گئی۔
میں: اچھا ذرا مجھے بھی بتائو وہ اردو کے کون سے الفاظ ہیں اور ان کی جگہ کن الفاظ نے پر کی؟
وہ: شمار کرنا تو محال ہے، کیوں کہ تعداد بے شمار ہے، رہی بات ان کی جگہ لینے والے الفاظ کی تو وہ ظاہر ہے کہ انگریزی زبان ہی کے لفظ ہیں جو اس غیر محسوس انداز میں ہماری روزانہ کی گفتگو اور تحریر کا حصہ بن گئے کہ مِن حیث القوم ہم گزشتہ کئی سال سے منگلش کے نام سے ایک نئی زبان کی ترویج بڑے فخر سے کر رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے ہمارے معاشرے میں اردو سے نابلد ہونا باعث ِ فخر اور انگریزی کی کم فہمی احساس ِ کمتری کا سبب بن گئی ہے۔
میں: ہاں تمہاری بات بالکل درست ہے، پتا تو چلے کہ کون سے الفاظ متروک ہوتے جارہے ہیں۔
وہ: میں نے کہا ناں بے شمار ہیں مگر تمہاری تسلی وتشفی کے لیے کچھ کا ذکرکیے دیتا ہوں۔ ’خوش آمدید اور استقبال‘ کی جگہ welcome بولا جانے لگا، ’امتزاج‘ جیسا خوب صورت، لفظ Combination سے بدلا، پرکشش Attractive، مقرر Speaker، سہل اور آسان easy، تجسس Curiosity، مزیدار اور خوش مزاہ Tasty اور delicious، تخیل imagination، پُر مزاح، خوش طبعی اور بذلہ سنجی Humorous ہوگئے۔ چلن اور طرز Trend یہاں تک کہ ذوق کے لیے بھی Taste جیسے بدذوق الفاظ بولے جاتے ہیں۔ میرے دوست یہ موضوع ایک پوری کتاب لکھنے کا متقاضی ہے، اس مختصر سی گفتگو میں احاطہ بہت مشکل ہے۔ تم اپنے عزیز رشتے داروں یا دوستوں کی کسی محفل میں بیٹھ جائو یا تھوڑی دیر ٹی وی اسکرین کے آگے اپنا وقت ضائع کرکے دیکھ لو اردو کی ناقدری اور بے بسی تمہارے مشاہدے میں بخوبی آجائے گی۔
میں: تھوڑی دیر کے لیے تمہاری بات سے اتفاق کرلیتا ہوں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بات اردو میں ہو یا منگلش میں بات تو سمجھ آجاتی ہے نا، اب انداز شائستہ ہو یا بھونڈا، الفاظ بے تکے ہوں یابے ربط۔ تم ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، جس کی تہذیب اس کی زبان۔ اس وقت دنیا میں مغربی تہذیب حاوی ہے تو لامحالہ انگریزی زبان ہی اظہارِ بیان کا معیارِ افتخار ہے۔
وہ: میرے بھائی یہ معاملہ صرف اردو کا ہی نہیں ہے، دنیا کی کئی زبانیں اسی زبوں حالی کا شکار ہیں، گزشتہ ۵۰ سال میں دنیا کے مختلف خطوں میں بولی جانے والی بیسیوں زبانیںختم ہوگئی ہیں، اگر ایک آدھ آدمی ان کو بولنے والا ہے تو ان کی بات سمجھنے والا کوئی نہیں۔
میں: یہ تو بڑی مایوس کن صورت حال ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا سے زبانیں نہیں مٹ رہیں بلکہ فرد اور اقوام کی انفرادیت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔
وہ: بہت خوب تم نے آج کی گفتگو سے ایک بہت اہم اور دلچسپ پہلو نکالا ہے، مگر اس پر آئندہ نشست پر بات کریں گے ابھی صرف اردو زبان کا دُکھڑا ہی رو لیتے ہیں۔
وہ: دنیا بھر کی مختلف زبانوں کے ساتھ یہ سارا کیا دھرا اس مغربی تہذیب اور انگریزی زبان کا ہے۔ اسی لیے محققین اس زبان کو Killer Language اور اس سے جڑی تہذیب کو crash civilizationکہتے ہیں۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ اردو کے زوال کی وجہ انگریزی ہے؟
وہ: کسی حد تک یہ بات درست ہے، مگر اپنی ناکامیوں پر کسی دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرانا بھی مناسب بات نہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنی قومی زبان اردو کی اس بے وقعتی کے اسباب خود اپنے اندر تلاش کریں۔
میں: یعنی بحیثیت قوم ہم سب اردو کے مجرم ہیں
وہ: اس جرم میں ہماری حکومتیں اور ادارے برابر کے شریک نہیں ہم سے زیادہ مجرم ہیں۔ ہمارا قصور تو بس اتنا ہے کہ ہم بھی ایک مخصوص طبقے سے مرعوب ہوکر اس بھیڑ چال کا شکار ہوگئے، پھر۔۔۔۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم … نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
میں: لیکن انگریزی زبان پر عبور ایک اچھے معاش کے حصول کا ذریعہ بھی تو ہے۔
وہ: بالکل ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں میں اپنی زبان کو حقیر جانوں اور اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کروں۔ میرے دوست سماجی تغیر اور اقدار کا زوال زبان ہی سے شروع ہوتا ہے۔ زبان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے اور ہر لفظ ایک علامت ہوتا ہے اور انہی علامتوں پر اس زبان سے جڑی تہذیب کی بنیادیں کھڑی ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے الفاظ دم توڑتے ہیں اسی رفتار سے اس زبان سے جڑی تہذیب بھی مٹتی چلی جاتی ہے۔ غور کرو تو ہم آج اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ اردو زبان کے صرف الفاظ نہیں بلکہ ہماری تہذیب اور معاشرت کی اقدار بھی ختم ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ایک جیتی جاگتی تہذیب کی علم بردار برصغیر میںسب سے زیادہ سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی اردو زبان، ہندوستان میں ہندوئوں کے تعصب کی بھینٹ چڑھ گئی اور انگریزی زبان کے زیر اثر آنے کے بعد، اس کے صرف الفاظ ہی کیا لباس کی تراش خراش، بودوباش، رسم ِ سلام، باہمی احترام، طرز کلام، خیال ِ خاطرِ احباب سے لے کر گلیوں، چوباروں، شاہراہوں اور عمارتوں کے نقش ونگار سب ہی کچھ فراموش ہوگئے۔ اور اس پہ ستم یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس حوالے سے سے کچھ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، کچھ لوگ ہیں جو اپنی استطاعت کے تحت اردو کی محبت میں کوشاں نظر آتے ہیں، مگر نقار خانے میں توتی کی آواز پر کون کان دھرتا ہے۔
میں: لیکن اردو کے ساتھ ایساسلوک کیوں روا رکھا جارہا ہے۔
وہ: کیوںکہ ہم حادثے کے بعد عمل کرنے والی قوم ہیں، ہمارے ہاں پھاٹک پرپل اسی وقت بنتا ہے جب تک کوئی ریل گاڑی اس جگہ کسی مسافر بس کے پرخچے نہ اڑا دے۔ ہماری حکومت اورکسی حد تک عوام بھی اردو کی پامالی کو حادثہ ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ اور مجھے آج پھر پروفیسر عنایت علی خاں کا وہ مشہور شعر یاد آرہا ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر