کوئٹہ (نمائندہ جسارت) بلوچستان کے طلبہ تنظیموں کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ سہولیات کے بغیر آن لائن شروع کرنے کا فیصلہ طلبہ دشمنی پر مبنی ہے، صوبے کے 86 فیصد لوگ انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں، انٹرنیٹ کے بغیر آن کلاسز لینا ممکن نہیں، پی ڈی ایم کی تحریک قابل قدر ہے، تاہم پی ڈی ایم قائدین کو طلبہ کے مسائل اجاگر کرنے چاہییں، آئے روز فیسوں میں اضافے سے غریب طلبہ کو حصول تعلیم میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکرٹری اول کبیر افغان، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ، پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مزمل خان و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر طلبہ یکجہتی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مقررین نے کہا کہ 70 سال سے بلوچستان کو پسماندہ رکھا گیا ہے، آج ایک مرتبہ پھر کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ 3 جی اور 4 جی انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسز شروع کیے جائیں گے، تاہم بلوچستان کے 86 فیصد لوگ انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں سیکورٹی وجوہات کی بناء پر انٹرنیٹ بند کردیا گیا ہے، ایسے حالات میں دور دراز علاقوں کے طلبہ آن لائن کلاسز سے محروم ہوں گے۔ طلبہ کے حقوق کے لیے بلوچستان کے طلبہ تنظیموں نے ہر فورم پر آواز بلند کیا ہے اور آج بھی طلبہ کے حقوق کے لیے نکلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئے روز فیسوں میں اضافے سے تعلیمی حرج ہورہا ہے، وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں وہ طلبہ کو سیاست نہیں کرنے دیتے اور جمہوری و ترقی پسند خیالات کو روکنے کی کوششیں کررہے ہیں، طویل عرصے سے طلبہ یونینز پر پابندی ہے، جب تک طلبہ یونینز پر عائد پابندی نہیں ہٹائی جاتی تب تک غیر منتخب نمائندے ہی منتخب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے قائدین کی تحریک قابل قدر ہے، تاہم پی ڈی ایم کے قائدین کو طلبہ کے مسائل کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف فیسوں میں آئے روز اضافے نے جہاں بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے نوجوانوں کو تعلیم سے دور کردیا ہے، وہیں پر سہولیات کی فراہمی کے بغیر آن لائن کلاس شروع کرنے سے طلبہ کو مزید تعلیمی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 86 فیصد عوام کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں جبکہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے وہ بھی انتہائی کمزور ہے، جس کے ذریعے براہ راست کلاس لینا مشکل ہے، اسی طرح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اکثر طلبہ کے پاس کمپیوٹر کی سہولت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے اکثر طلبہ جو کورونا وبا کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں میں ہیں ان کے لیے آن لائن کلاسز لینا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف آن لائن کلاسز شروع کی گئی ہیں۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، ہائر ایجوکیشن کمیشن، جامعات، کالجز سمیت محکمہ تعلیم کے حکام بالا سے مطالبہ کیا کہ وہ آج کے مشکل گھڑی میں طلبہ کی فیسوں کو معاف کرنے، بلوچستان کے تمام علاقوں میں انٹرنیٹ و کمپیوٹر کی سہولیات فراہم کرنے کے بعد آن لائن کلاسز شروع کروائے جائیں، بصورت دیگر وہ احتجاج نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اسے مزید وسعت دی جائے گی۔