آرزو کی مسلم شخص سے شادی قانون کے مطابق ہے، وکیل دفاع

32

کراچی(نمائندہ جسارت)کراچی کی مقامی عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ کم عمر مسیحی لڑکی آرزو راجا کی مسلم شخص سے شادی وفاقی قوانین اور شریعت کے عین مطابق ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔خیال رہے کہ آرزو نے مبینہ طور پر اسلام قبول کیا تھا اور مرضی سے سید علیاظہر سے شادی کی تھی۔پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ لڑکی آرزو کے شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ ان کے دو بھائیوں اور ایک دوست کو مبینہ طور پر 13 اکتوبر کو لڑکی کے اغوا میں ملوث ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔جمعہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) محمد علی دَل کی عدالت میں معاملے کی سماعت ہوئی جہاں گزشتہ سماعت میں تفتیشی افسر کی جانب سے جمع کرائی گئی چارج شیٹ پر دلائل دیے گئے۔وکیل دفاع نظار تنولی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اظہر اور آرزو کی شادی میجورٹی ایکٹ 1875 کی شقوں کے مطابق قانونی ہے، جس کے تحت 18 سال یا اس سے زائد عمر والے شخص کو بالغ جبکہ اس سے کم عمر والے انسان کو نابالغ تصور کیا جاتا ہے، تاہم نابالغ کی شادی پر کوئی قدغن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم خاندان قوانین آرڈیننس 1961 کے مطابق بھی کوئی بھی شہری بلوغت کے بعد شادی کر سکتا ہے۔وکیل نے کہا کہ لہٰذا آرزو اور اظہر کی شادی وفاقی اور شرعی قوانین کے مطابق قانونی ہے۔مقدمے میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات شامل سے متعلق درخواست پر ان کا کہنا تھا اس قانون کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا کیونکہ یہ صوبائی قانون ہے جس کی جگہ وفاقی اور شرعی قوانین نے لے لی ہے۔انہوں نے کہا کہ آرزو سندھ ہائی کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کرا چکی ہے جس میں اس نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور آزادانہ طور پر شادی کی۔وکیل دفاع نے مزید کہا کہ چونکہ ان کے موکل کی آرزو سے شادی قوانین اور شریعت کے مطابق ہوئی اس لیے ان کے درمیان جنسی تعلقات بھی قانونی ہیں اور یہ کسی طور پر ریپ کا کیس نہیں ہے۔نظار تنولی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے وکیل استغاثہ کے دلائل کے لیے یکم دسمبر کی تاریخ مقرر کردی۔