حکومتوں نے سودی نظام کے خاتمے کیلیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے

202

 

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) سودی نظام کا خاصہ ہے کہ وہ ماسوائے چند لوگوں کے پوری معیشت کو تباہ کر دیتا ہے‘ اسلام کا سود کو باطل کرنے کا مقصد امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر ہونے سے روکنا تھا۔ شریعہ عدالت نے اسلام کے نظریے کے مطابق ہر قسم کے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے جون 1992ء تک تمام مالی معاملات شرعی اصولوں کے مطابق کرنے کا حکم جاری کیا لیکن اس جرأت مندانہ فیصلہ پر محض اس لیے عمل نہ ہوسکا کہ ایک نجی بینک نے ایک سال کی مزید مہلت مانگ لی اور وہ مہلت اب تک پوری نہیں ہوئی۔ ہمارے معاشی ماہرین نے 7 عشروں سے زاید عرصہ گزر جانے کے باوجود سودی نظام کے خاتمے کے لیے کوئی توجہ نہیں دی جس کی بنا پر تاحال ملک کا معاشی نظام سود پر قائم ہے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے شعبہ اصول دین کے چیئرمین مفتی پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین صدیقی، بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ اسلامیات سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر گلناز اور جامعہ کراچی کے شعبہ بزنس اسکول میں کئی سال سے تدریس سے وابستہ سید محمد فرخ نے اس سوال کے جواب میں کیا کہ” قرآن سود کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے، اس کے باوجود اسلامی
جمہوریہ پاکستان کی پوری معیشت اور مالیاتی نظام سود پر کیوں کھڑا ہے؟” جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتی پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ1947ء میں احمد نجار یہودی نے جرمنی سے’’ اسلامی بینکاری کی اصطلاح وضع کی تاکہ دیندار مسلمان اپنی بچتیں اسلام کے نام پر ان کے حوالے کرنے میں رضا مند ہوں۔ مصر میں پہلا ناصر اسلامک سوشل بینک 1975ء میں قائم کیا گیا اور اس کے بعد دنیا میں ’’بلا سودی‘‘ بینکاری اور ’’اسلامی بینکاری‘‘ کی اصطلاحات پر تمام مکاتبِ فکر کے علما و مجتہدین نے اپنی اپنی تحقیق کی روشنی میں’’ سود سے پاک معیشت‘‘ کی طرف رہنمائی کی اور سود کے متبادل نظام دیا اور عصر حاضر میں دبئی اسلامک بینک، بینک البرکہ، میزان بینک اور دیگر بینکوں کی اسلامی شاخوں نے کام کرنا شروع کر دیا اور’’ رقم‘‘ کے بجائے’’مالی اثاثہ‘‘ (Sale item goods) کی بنیاد پر مرابحہ ،مشارکہ اورمضاربہ وغیرہ کی اصطلاحات متعارف کرائیں اور ان طریقوں سے اسلامی بینکاری کو رواج دیا اور پروان چڑھایا مگر چونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بعض حکمران اور بعض سیاستدان بینکوں سے قرضہ لے کر معاف کرا رہے ہیں اور غبن کر کے اپنے بیرونی اکائونٹ میں اصل زر تک کو منتقل کرتے رہے جس کے نتیجے میں کئی بینک دیوالیہ ہو گئے اور ملکی معیشت تباہ ہوتی چلی گئی‘ نئے آنے والے حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کے لیے ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف سے سودی قرضے لینے کا سلسلہ جاری رکھا اور بجٹ میں ادئیگیوں کا توازن بگڑتا چلا گیا اور’’ سود لی لعنت‘‘ کی وجہ سے ملک سود در سود کی دلدل میں دھنستا چلا گیا‘ اب ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کی مدد میں جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے‘ اس کا بھی ایک بڑا حصہ سودی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے‘ عوام پر براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس لگا کرظلم روا رکھا جاتا ہے لیکن کسی حکمران اور سیاستدان میں شاید یہ جرأت نہیں کہ وہ عالمی سطح پر یہ اعلان کر سکے ’’ اسلام میں سود حرام ہے ‘‘ لہٰذا ہم نے جتنا اصل زر لیا تھا وہ ادا کرنے کے بعد ہم مزید سود ادا نہیں کریں گے۔ غرضیکہ جو جو طبقات سود کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر سکتے تھے انہوں نے وہ موثر کردار ادا نہیں کیا اسی لیے ہم پاکستانی اب تک معاشی استحکام کی منزل تک نہیں پہنچ سکے‘ پاکستان میں’’نفاذ نظام مصطفیؐ‘‘ کی تحریک کو بزور طاقت1957ء میں کچل دیا گیا‘ مرحوم جنرل ضیا الحق کے دور میں قوانین کو اسلامی بنانے کا جو عمل شروع کیا گیا تھا‘ ان کی شہادت کے بعد وہ عمل روک دیا گیا‘ صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ سرحد) میں’’حبہ بل‘‘ برائے نفاذ شریعت پیش کیا گیا مگر اسے آگے کے مراحل تک نہیںپہنچنے دیا گیا۔ آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان جن قوانین کی اسلام سازی کرتی ہے اور جو سفارشات پیش کرتی ہے‘ اکثر ردی کی ٹوکری کی نظر کر دی جاتی ہے۔ شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے جتنی مذہبی تحریکیں چلائی گئیں‘ انہیں سرکاری مشینری کے ذریعے ختم کردیا گیا‘ سود یا کوٹا سسٹم یا کسی اور معاملے میں وفاقی شرعی عدالت نے قرآن و سنت پر مبنی جو بھی فیصلہ دیا اسے عدالت عظمیٰ کے ذریعے رکوا دیا گیا اور نافذ العمل نہیں ہونے دیا گیا۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر گلناز کا کہنا تھا کہ سود ایک ایسی برائی ہے جس کی ممانعت قرآن کریم سے قبل تورات اور زبور میں بھی کی گئی تھی‘ قرآن کریم میں تو اسے گویا اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ قرار دیتے ہوئے ایمان والوں کو اس سے روک دیا گیا ہے، جو سود اور تجارت میں تفریق نہیں کرتے انہیں مخبوط الحواس کہا گیا۔ سود کی حرمت کا اعلان رسولؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا اور اپنے چچا حضرت عباسؓ کے ذمہ اس سود کو ختم کر دیا جو وہ حرمتِ سود سے قبل لوگوں کو قرض دیتے ہوئے عاید کرتے تھے۔ دراصل اسلام کا سود کو باطل کرنے کا مقصد امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر ہونے سے روکنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو یہ حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کے مال سے صدقات وصول کریں اور اس بات کو نا پسند کیا کہ مال چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہی گردش کرتا رہے کیونکہ یہ سودی نظام کا خاصہ ہے کہ وہ ماسوائے چند لوگوں کے پوری معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی سود ی نظام کے خاتمے کے لیے اسلامی بینکاری کی طرف رخ کیا۔ اس کے لیے 1979 میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمے داری دی گئی تاکہ اسلامی معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا بینکاری، مالیاتی اور معاشی نظام بنایا جائے جس کی بدولت سودی نظام سے آزادی حاصل کی جاسکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی حتمی رپورٹ فروری 1980ء میں پیش کی جسے کچھ ترمیم کے بعد جون 1980ء میں منظور کر لیا گیا۔ اسٹیٹ بینک نے تمام سودی بینکوں کو حکم دیا وہ 1981ء سے اپنے تمام مالیاتی معاملات غیر سودی بنیادوں پر چلانے کے پابند ہوں گے۔ تجارتی بینکوں نے یکم جنوری1981ء سے نفع اور نقصان کی بنیاد پر غیر سودی کھاتے کھولنے کا آغازکر دیا لیکن مارک اپ ابھی بھی موجود تھا جبکہ اسلامی کونسل کی رپورٹ میں مارک اپ کے علاوہ بھی تجویز موجود تھی جس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ پھر 1990ء میں سود کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی مالی معاملات بھی شریعہ کورٹ میں پیش ہوئے۔ شریعہ عدالت نے اسلام کے نظریے کے مطابق ہر قسم کے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے جون 1992ء تک تمام مالی معاملات شرعی اصولوں کے مطابق کرنے کا حکم جاری کیا لیکن اس جرأت مندانہ فیصلہ پر محض اس لیے عمل نہ ہوسکا کہ ایک نجی بینک نے ایک سال کی مزید مہلت مانگ لی اور وہ مہلت اب تک پوری نہیں ہوئی۔ یہ تو پاکستان کے داخلی معاملات تھے لیکن خارجی سطح پر بھی پاکستان سودی دلدل میں اس وقت پھنسا جب پہلی مرتبہ 1958ء میں آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یہ پاکستان کو اتنا مہنگا پڑا کہ آج تک ہم سودی قرضوں پر معیشت چلانے کی کوششیں کر رہے ہیں‘ وطن عزیز پر مزید ستم یہ کہ اس سود کی ادائیگی کے لیے معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے درکار رقم سے کٹوتیاں کی جاتی ہیں اور یہ صورتحال نہ صرف بیروزگاری کو جنم دے رہی ہے بلکہ غربت میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ درحقیقت پاکستان میں سود ی نظام کے خاتمے کے لیے کوششیں تو بارہا کی گئیں لیکن کبھی حکومتوں کی تبدیلی کے باعث اور کبھی ارباب اختیار کی عدم دلچسپی کے باعث معاملہ جوں کا توں رہا۔ ماہرین معاشیات خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، سودی نظام کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے غیر سودی نظام کے لیے کوشاں ہیں‘ ہماری سلامتی اور بقا اسی میں ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو بغیر کسی دباؤ کے سود ی نظام کے خاتمے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں۔ سید محمد فرخ کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد جولائی 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم اپنے معاشی نظام کی بنیاد مغرب کے معاشی فلسفہ پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانی معاشروں کو جنگوں اور تباہی سے دوچار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قائد اعظم نے ملک کے معاشی ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ملک کے معاشی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت کریں۔ قائد اعظم کا خواب پاکستان کو ایک مضبوط فلاحی ریاست بنانا تھا مگر ان کی زندگی نے ان کے اس مشن کو مکمل کرنے کی مہلت نہیں دی۔ بعد ازاں جمہوری اور فوجی ادوار میں اسلامی مالیت اور معاشیات کے لیے کوششیں کی گئیں مگر کوئی بھی مکمل طور پر نفاذ کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کر سکا۔ 7 عشروں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود ہمارے معاشی ماہرین نے توجہ نہیں دی اور تاحال ملک کا معاشی نظام سود پر قائم ہے۔ موجودہ حکومت نے مدینہ جیسی فلاحی ریاست کے خواب دکھائے لیکن اے بسا آرزوئے خاک شد۔۔۔ اس دوران عالمی سطح پر یہ تبدیلی ضرور آئی کہ سابق پاپائے روم پوپ نے بینی ڈکٹ کی قائم کردہ معاشی ماہرین کی ایک کمیٹی نے رپورٹ دی کہ دنیا کے معاشی نظام کو قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کے مطابق چلا کر ہی صحیح رخ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سے عالمی سطح پر غیر سودی بینکاری کی طرف نہ صرف یہ کہ مغربی ملکوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے بلکہ اس وقت مغرب میں غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش جاری ہے اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر یں گے‘ ہمارے ملک میں غیر سودی بینکاری اور معیشت کے عمومی تناظر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے طویل بحث و مباحثہ و تجزیہ کے بعد ملک میں رائج سودی قوانین کو غیر اسلامی اور غیر دستوری قرار دے کر حکومت کو انہیں اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ جس کی توثیق عدالت عظمیٰ نے بھی کی تھی لیکن ہمارا حکمران طبقہ اور بینکار حلقے اسے قبول کرنے کے بجائے اپیل در اپیل کے چکر میں ٹالتے چلے جانے میں مصروف ہیں اور خاصے عرصے کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع کی ہے تو اس کے لیے دینی حلقوں کے متحرک ہونے کی وجہ سے کیس کو پھر معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے ایک مستحکم ریاست بن کر عالم اسلام کی قیادت کر سکتا ہے اور کیپیٹل اکنامی کے مقابلے میں ایک مستحکم معاشی نظام متعارف کراسکتا ہے۔ اسی خوف سے پاکستان کو ہمیشہ اندورونی اور بیرونی مسائل میں الجھا کے ہماری معیشت کو تباہ حال کیا گیا اور مالی معاملات قرض اور سود کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام ہماری معیشت پر راج کر رہاہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس 1958ء میں گیا تھا‘ اس وقت سے آج تک ہم آئی ایم ایف کے سود اور شرائط سے باہر نہیں آ سکے ہیں‘ موجودہ حکومت کو معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے متعلقہ محکموں میں جس نوعیت کے انسانی وسائل اور مہارتوں کی ضرورت تھی اس کو ان کی کمی کا بھی سامنا ہے جس کے باعث مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی ایما پر روپے کی قدر کو گرایا، ڈسکاؤنٹ ریٹ اور شرحِ سود میں اضافہ کیا۔ صرف روپے کی قدر کو گرانے اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے سے ملک کے مجموعی قرض میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی تصویر ہے ہمارے اندرونی اور بیرونی سیاسی پریشر کی جب ہمارے فیصلہ آئی ایم ایف کر رہی ہے تو ہم کیسے اسلامی فلاحی مدینہ جیسی ریاست کا تصور پیش کر سکتے ہیں۔