سعود ساحر کوچہ صحافت کو ویران کر گئے (قسط1)

171

کوچہ صحافت کی ویرانی میں بڑا اضافہ اطہر ہاشمی صاحب اور اب سعود ساحر صاحب کے جانے سے ہوا ہے۔ لیکن یہ دو لوگ ہی اس دنیا سے نہیں گئے ہیں۔ گزشتہ مہینوں کے دوران بہت اہم نام صحافت کے میدان سے چلے گئے۔ صحافی کی ایک خصوصیت ہوتی ہے وہ کبھی سابق صحافی نہیں ہوتا۔ اگر حقیقتاً صحافت کررہا ہے تو مرتے دم تک یا کام کرنے کی طاقت رکھنے تک صحافت ہی کرتا ہے۔ جب کہ سابق ڈی جی، سابق ایم ڈی، سابق سی ای او اور سابق افسر وغیرہ ہر طرف گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی سے قیصر محمود جیسے صحافی کا انتقال ہوا، کوچہ صحافت میں کوئی 38 برس قبل داخل ہوئے تو یہ آواز جسارت کے کوریڈور میں گونج رہی تھی۔ آپ لوگ سمسزتے (سمجھتے) نہیں کہ خبر کیا ہے۔ کیسے بنتی ہے۔ دیکھو کچی خبر کبھی نہیں پھینکنا خواہ خبر کوئی اور چھاپ دے۔ یہ قیصر محمود تھے اپنے ساتھی رپورٹروں سے مخاطب تھے۔ اس وقت وہ چیف رپورٹر نہیں تھے۔ لیکن ان کی عادت تھی ہر وقت لوگوں کو سکھانا۔ کسی اخبار میں اپنے کسی ساتھی کی خبر شائع ہو اس میں کوئی نکتہ شامل نہ ہو تو اگلے دن پریس کلب میں اس کو بتارہے ہوتے تھے کہ یہ بات فلاں جگہ سے مل سکتی تھی۔ انہوں نے ساتھیوں کو بتایا کہ خبر ملتے ہی متعلقہ اداروں سے رابطہ کرنا چاہیے۔ وہ تردید کریں تو اس کو بھی شامل کریں۔ ان کا موقف بھی لیں لیکن اگر آپ کے پاس مصدقہ اطلاع ہے تو ثبوت کے ساتھ خبر شائع کردیں۔ آج کل تو سماجی میڈیا ہے، واٹس اپ ہے جو آتا ہے بائی لائن چل جاتا ہے۔ قیصر محمود اس سے بہت پہلے 80 کے عشرے میں بتاتے تھے کہ سنی سنائی بات خبر نہیں ہے۔ آپ کو دلچسپی ہے تو خود تصدیق کریں۔ اس کا مطلب اسپاٹ رپورٹنگ ہے۔ اور اس معاملے میں وہ دیوانے تھے۔ اب کتنے رپورٹر اسپاٹ رپورٹنگ کرتے ہیں؟۔ ایک دفعہ کراچی میں فائرنگ کے واقعات کی خبر اسپتالوں کے دورے کے بعد تین بجے رات گھر پہنچے کہ فون آ گیا کہ کلفٹن میں دو ایرانی گروپوں میں لڑائی ہو رہی ہے ۔ دوبارہ گھر سے نکلے وہاں پہنچے اور پوراواقعہ خود رپورٹ کیا ۔ اسے کہتے ہیں… رپورٹنگ اور رپورٹر مرتے دم تک صحافت کا ایسا نمونہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ اسپتال سے آخری پیغام بھی صحافیوں کے نام یہی ہے کہ ایمانداری سے کام کریں۔ محنت کریں اور وہ اسی حالت میں انتقال کرگئے۔ قیصر محمود جب جسارت سے فارغ ہوئے کئی مہینوں تک ملازمت نہیں تھی۔ ایک دن میر جاوید صاحب نے بلایا کامرس پیج کا انچارج بنانے کی پیشکش کی۔ جاوید صاحب نے اچھی پیشکش کی تھی قیصر محمود نے کہا کہ اس تنخواہ میں چارج الائونس نہیں لگایا گیا۔ اس پر میر جاوید صاحب نے کہا کہ آپ کا نام ہمارے اخبار میں شائع ہوگا۔ آپ چارج الائونس کی بات کررہے ہیں تو قیصر محمود نے کہا کہ وہ اور لوگ ہوں گے جو اخبار کا نام بیچتے ہوں میں اصولی بات کررہا ہوں۔ صفحے کا انچارج ہوں تو چارج الائونس میرا حق ہے۔ جاوید صاحب نے کہا دیکھ لو میاں… قیصر محمود یہ کہہ کر آگئے کہ جب فاقوں تک نوبت آجائے گی تو ضرور آپ کی شرائط پر کام کروں گا۔ بعد میں وہ دی نیوز انفولائن جیو سے وابستہ ہوئے اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے اس شعبے میں بھی زبردست کام کیا۔
ذکر کچھ ’’آقا‘‘ کا ہوجائے تو اچھا ہے۔ کراچی کے رپورٹرز ’’آقا‘‘ کے نام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ شکیل حسنین کو آقا کا نام کس نے دیا اس کا زیادہ الزام طارق مخدومی اورضرار خان پر ہے لیکن تمام جونیئر رپورٹرز بالاتفاق انہیں آقا کہتے تھے۔ ویسے تو نذیر خان بھی آقا ہی کہلاتے تھے لیکن شکیل حسنین پر زیادہ لوگوں کا اتفاق ہے۔ شکیل حسنین سے جسارت میں ملاقات ہوئی۔ ہم شفٹ انچارج اور پھر نیوز ایڈیٹر بنے ان کے خود کار نظام کااپنا انداز تھا چار ساڑھے چار بجے اسمبلی، بلدیہ، پریس کلب وغیرہ سب جگہ کی خبر لے کر دفتر پہنچتے۔ رپورٹنگ بھگتاتے، یہ لفظ ان کا تکیہ کلام تھا۔ ابھی رپورٹنگ بھگتائی ہے۔ اب کریڈیں (CREEDS) (خبرایجنسی) بھگتاتا ہوں۔ پھر نیوز ڈیسک کا رُخ کرتے اگر شفٹ انچارج نہ ہو تو خود اے پی پی اور پی پی آئی کی خبریں نکال کر لاتے۔ کراچی سے متعلق یا کبھی کبھار سرکار کی کوئی خبر سرکاری ایجنسی کی نکالتے ترجمہ کرتے اور خبریں بھگتا دیتے تھے۔ لیکن یہ بھگتانا غلط معنوں میں نہیں ہونا تھا جلد از جلد کام کرنے سے مراد بھگتانا ہوتا تھا۔ اور شام ساڑھے سات بجے سے ٹہلنا شروع کردیتے، پونے آٹھ بجے بھی خبر مل جائے تو فوراً بناتے۔ لیکن آٹھ بجے گویا کرفیو کے اوقات شروع ہوگئے وہ دفتر سے نکل جاتے لیکن خبر پھر بھی کوئی مس نہیں ہوتی کیونکہ آقا کے مرید سارے شہر میں تھے کسی نہ کسی اخبار سے فون آتا کہ آقا نے خبر دینے کو کہا ہے فیکس کررہا ہوں۔ بلدیہ اور اسمبلی کی خبریں شکیل حسنین ہی بناتے بلکہ کئی
کاپیاں لے کر دفتر آتے تھے اس طرح سارے شہر میں ہمارے موقف کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ آقا جو نہیں رہے۔ آقا کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ انہیں ہر بات پہلے سے معلوم ہوتی تھی۔ لیکن یہ بھی تکیہ کلام تھا۔ ہاں معلوم ہے یار پہلے سے معلوم ہے، ہم کو تو پتا ہے بھائی… اس کا مذاق بھی بنتا تھا لیکن انہوں نے معلوم ہے، پتا ہے کہنا نہیں چھوڑا۔ انہیں بھی پتا تو تھا کہ ایک دن فرشتہ ٔ اجل آئے گا اور لے جائے گا۔ سو وہ آیا اور لے گیا۔ اور بھی صحافی اس دوران ساتھ چھوڑ گئے۔ جسارت کے قاضی عمران تو نوجوانی ہی میں چلے گئے تھے لیکن گزشتہ دنوں اپنے ایک کام کے حوالے سیبہت یاد آئے۔ کسی صحافی کا کوئی مسئلہ ہو ہیلتھ کے رپورٹر کے طور پر ان سے کہا جاتا وہ ہمہ وقت تیار، رات 11 بجے بھی تیار رہتے تھے اب اپنے بہت ضروری ٹیسٹ کرانے تھے ان کی قیمت بھی زیادہ تھی اور مختلف اسپتالوں کا چکر لگانا تھا کچھ لوگوں سے پوچھا پھر خود ہی کرالیے۔ لیکن قاضی عمران بہت یاد آئے۔ وہ سارا انتظام کرتے شیڈول بناتے اور پھر بتاتے کہ پہلے کہاں جانا ہے کس سے ملنا ہے آج بھی جسارت میں کسی کی ضرورت ہوتی ہے تو بے ساختہ زیادہ تر یہ جملہ آتا ہے کہ قاضی عمران سے کہوں گا۔ لیکن وہ مرد مجاہد تو انتقال سے ایک ہفتہ قبل بھی دفتر کے ساتھی کو چیک کرانے گیا تھا وہیں پتا چلا کہ خود بہت خطرناک حالت میں ہے اور پھر یہ خطرناک حالت اسے ساتھ لے گئی۔