جاوید چودھری، نواز شریف اور کمیونزم؟

1489

ایک بے خدا نظریہ ہونے کی وجہ سے مارکسزم ہمیں زہر لگتا ہے لیکن مارکسزم کی سطح ہمارے زمانے تک آتے آتے اتنی گر جائے گی ہمیں اس کا اندازہ نہ تھا۔ مارکسزم کی سطح کے گرنے کی بات مذاق نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جاوید چودھری اور میاں نواز شریف مارکسزم سے رومانس لڑاتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ مارکسزم سے جاوید چودھری اور میاں نواز شریف کے رومانس کی اطلاع ہمیں خود جاوید چودھری نے اپنے کالم میں دی ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں معروف کمیونسٹ دانش ور اقبال احمد پر تقریباً ایک پورا کالم لکھ مارا ہے۔ انہوں نے اس کالم میں اقبال احمد کو پاکستان کا ’’حقیقی دانش ور‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کالم میں بتایا ہے کہ اقبال احمد ایڈورڈ سعید، نوم چومسکی، ارون دھتی رائے جیسے دانش وروں کے دوست تھے۔ ایک زمانے تک اقبال احمد کے خیالات عیاں نہیں تھے مگر پھر بقول جاوید چودھری کھل کر کمیونزم کا پرچار کرنے لگے۔ جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف اقبال احمد سے ’’متاثر‘‘ تھے۔ وہ اقبال احمد کو امریکا سے پاکستان لائے۔ انہوں نے 1997ء میں اقبال احمد کو ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ بنادیا۔ نواز شریف نے انہیں اسلام آباد میں نجی یونیورسٹی کے قیام کے لیے زمین بھی الاٹ کی۔ (روزنامہ ایکسپریس، 17نومبر 2020ء)
ہم تو جاوید چودھری اور میاں نواز شریف کو ’’مسلمان‘‘ سمجھتے تھے مگر یہ لوگ تو ’’کمیونسٹ‘‘ نکل آئے۔ بلاشبہ جاوید چودھری نے اپنے کالم میں کہیں نہیں کہا کہ وہ کمیونسٹ یا مارکسٹ ہیں مگر انہوں نے ایک کمیونسٹ کی تعریف میں جس طرح زمین آسمان کو ایک کیا ہے وہ یہ بتارہا ہے کہ جاوید چودھری کو کمیونزم اور کمیونسٹ افراد سے محبت ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی کبھی نہیں کہا کہ وہ کمیونسٹ ہیں مگر انہوں نے ایک بدنام زمانہ کمیونسٹ دانش ور کی جس طرح پزیرائی کی اس سے صاف عیاں ہے کہ انہیں بھی کمیونزم اور کمیونسٹ افراد سے کسی نہ کسی درجے کا عشق ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کمیونزم خدا کا منکر تھا، رسالت کا منکر تھا، وحی کا منکر تھا، مذہب کا منکر تھا، مذہبی اخلاق کا منکر تھا۔ جدید کمیونزم کے بانی کارل مارکس کا مشہور زمانہ فقرہ ہے کہ مذہب عوام کی ’’افیون‘‘ ہے۔ مارکس کا خیال تھا کہ مذہب کے انہدام کے بغیر ایک بہتر معاشرہ وجود ہی میں نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم نے روس اور چین میں تمام مذاہب کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ اہل پاکستان آگاہ رہیں جاوید چودھری اور ان کے ’’محبوب رہنما‘‘ میاں نواز شریف کمیونزم اور اس کے علمبرداروں سے دلی محبت رکھتے ہیں اور وہ ان کی ’’ترقی‘‘ کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ خیر میاں نواز شریف کا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک زمانے میں انہوں نے قادیانی سائنس دان عبدالسلام کو بھی کافی سر پہ بٹھایا، یہاں تک کہ پاکستان کی ایک جامعہ کے ایک شعبے کو عبدالسلام سے منسوب کرنے کی جرأت کر ڈالی۔ آخر ایک ’’مسلمان‘‘ ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو کمیونسٹوں اور قادیانیوں سے اتنی محبت کیوں ہے؟۔
جہاں تک زیر بحث موضوع کے حوالے سے جاوید چودھری کا معاملہ ہے تو اس کالم سے ان کا ایک اور بہت بڑا عیب نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ان کے لیے اہمیت حق و صداقت خدا اور مذہب کی نہیں ہے ان کے نزدیک اہمیت اس بات کی ہے کہ کوئی شخص کتنا مشہور ہے۔ اگر کوئی شخص قومی یا بین الاقوامی شہرت کا حامل ہو تو خواہ وہ خدا، رسول اکرمؐ اور اسلام کا دشمن ہو مگر وہ جاوید چودھری کا ’’ہیرو‘‘ ہے۔ جاوید چودھری کی نظر میں وہ پاکستان کا ’’حقیقی دانش ور‘‘ ہے۔ وہ دنیا میں پاکستان کی ’’دانش ورانہ پہچان‘‘ ہے۔ مگر یہ تو جاوید چودھری کے حوالے سے محض ابتدا ہے۔
جاوید چودھری کے بقول ایک بار اقبال احمد سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان میں امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کی کس اچھی چیز کو مس کرتے ہیں۔ اقبال احمد نے کہا ’’اچھی گفتگو‘‘ کو۔ اقبال احمد نے کہا کہ پاکستان میں جاہل اور پڑھے لکھے افراد صرف سیاست اور سیاست دانوں کے اسکینڈلز پر بات کرتے ہیں۔ جاوید چودھری نے اقبال احمد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ پاکستان کے کسی حصے میں چلے جائیں وہاں سیاسی گفتگو کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر آپ سیاست سے جان چھڑا بھی لیں تو ’’مذہبی گفتگو‘‘ کے ’’تالاب‘‘ میں گر جائیں گے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں ہر جگہ سیاست پر گفتگو ہوتی ہے۔ ہمارے اخبارات اور نیوز چینلز کا بیش تر مواد سیاست سے متعلق ہوتا ہے۔ لیکن جاوید چودھری نے ان اسباب پر روشنی نہیں ڈالی جن کی وجہ سے ہمارے یہاں سیاست پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ سیاست کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ سیاست اور قوم کی اجتماعی تقدیر باہم منسلک ہیں۔ چناں چہ سیاست پر گفتگو ضروری ہے۔ سیاست پر گفتگو کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد سے آج تک ’’بیمار‘‘ چلی آرہی ہے۔ عام حالات میں آدمی ناک کے بارے میں سوچتا بھی نہیں مگر جب ناک بند ہوجاتی ہے یا بہت بہنے لگتی ہے تو آدمی ہروقت ناک کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ سیاست تو پھر بھی بڑی چیز ہے۔ امریکا اور یورپ کی سیاست جیسی بھی ہے اس کے بارے میں دو تین باتیں طے ہیں۔ مثلاً اس کے بارے میں ایک بات یہ طے ہے کہ امریکا اور یورپ کی سیاست ہمیشہ جمہوریت کی پابند ہوگی مگر پاکستان میں ہم کبھی جمہوریت سے رومانس لڑاتے ہوئے پائے جاتے ہیں کبھی ہمیں فوجی آمریت کی محبت میں مبتلا دیکھا جاتا ہے۔ ہماری سیاست کا ایک مرض یہ ہے کہ وہ شخصی، خاندانی اور موروثی ہے۔ ہماری سیاست کی ایک بیماری لسانی اور صوبائی تعصبات ہیں۔ ہمارے ملک میں کہیں ’’پنجابیت‘‘ چل رہی ہے۔ کہیں ’’مہاجریت‘‘ اپنی بہاریں دکھا رہی ہے۔ کہیں ’’سندھیت‘‘ قلانچیں مار رہی ہے۔ کہیں ’’پشتونیت‘‘ نے دھرنا دیا ہوا ہے۔ کہیں ’’بلوچیت‘‘ جلوے دکھا رہی ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست میں نہ کہیں ’’اسلامیت‘‘ موجود ہے نہ کہیں ’’پاکستانیت‘‘ پائی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر ہمارے ملک میں موجود ’’فوجیت‘‘ پوری کر دیتی ہے۔ ہماری سیاست کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرسے پائوں تک بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ شریفوں اور بھٹوئوں نے بدعنوانی کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ طلسم ہوش ربا بھی اس کے سامنے بچوں کا کھیل ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہماری سیاست امریکا سے کنٹرول ہوتی رہی ہے۔ ان حالات میں ملک میں ہروقت سیاست پر بات نہ ہو تو کیا ہو؟ ہماری سیاست صحت مند ہوتی تو اس پر اتنی زیادہ گفتگو نہ ہوتی۔ جہاں تک ہماری رائے کا تعلق ہے تو ہمیں سیاست پر ہونے والی گفتگو پر اصل اعتراض یہ ہے کہ اس کی کوئی ’’سطح‘‘ نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی ’’علمی تناظر‘‘ نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی ’’نظریاتی بنیاد‘‘ نہیں ہوتی۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں مذہب پر ہونے والی گفتگو کا ذکر بڑی تحقیر سے کیا ہے۔ ان کا اصل فقرہ یہ ہے۔
’’اگر آپ کسی طرح سیاست سے جان چھڑا بھی لیں تو آپ مذہبی گفتگو کے تالاب میں گر جائیں گے‘‘۔
دیکھا جائے تو جاوید چودھری کہہ رہے ہیں کہ ہم یا تو سیاست پر گفتگو کرتے ہیں یا مذہب پر کلام فرماتے ہیں۔ یعنی جاوید چودھری کے نزدیک سیاست اور مذہب پر گفتگو ہم معنی ہے۔ جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہب پر زیادہ گفتگو اس لیے ہوتی ہے کہ مذہب ہمارا عقیدہ ہے۔ مذہب ہماری تہذیب ہے۔ مذہب ہماری تاریخ ہے۔ مذہب ہمارا آرٹ ہے۔ مذہب ہمارا کلچر ہے۔ اس منظرنامے میں مذہب پر گفتگو نہ ہو تو کیا ہو؟۔ امریکا اور یورپ میں مذہب پر اس لیے گفتگو نہیں ہوتی کہ مغرب مذہب کو مسترد کرچکا ہے۔ یہاں ہمیں اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آگیا۔ اکبر نے فرمایا ہے۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
اکبر کے اس شعر میں ’’مذہبی بحث‘‘ کا مفہوم دراصل ’’فرقہ ورانہ بحث‘‘ یا ’’مسلکی بحث‘‘ ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ فرقہ ورانہ اور مسلکی بحثوں کا حاصل صفر ہوتا ہے۔ فرقہ اور مسلک ایک ’’تعصب‘‘ کا نام ہے اور انسانوں کی اکثریت کو اپنے تعصبات سے محبت ہوتی ہے اور وہ ہرحال میں ان سے چمٹے رہتے ہیں۔ لیکن جاوید چودھری نے اپنے کالم میں مذہبی بحث کو اس کے وسیع تر معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم پاکستانی ہر وقت مذہب، مذہب کرتے رہتے ہیں۔ آخر پاکستانی ایسا کیوں نہ کریں۔ مذہب ہمارا سب کچھ ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہمیں اپنے مذہبی موقف کو زیادہ سے زیادہ ’’علمی‘‘ اور زیادہ سے زیادہ ’’مستند‘‘ بنانا چاہیے۔ لیکن بہرحال مذہبی گفتگو کا ذکر تحقیر سے کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں اقبال احمد کا یہ فقرہ کوٹ کیا ہے کہ دنیا بھر میں ’’آئیڈیاز‘‘ پر گفتگو ہوتی ہے مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ آئیڈیاز پر گفتگو کے لیے پڑھنا پڑتا ہے مگر ہمارے یہاں تو پروفیسرز تک نہیں پڑھتے۔ جاوید چودھری کی یہ بات سو فی صد درست ہے۔ ہمارے یہاں ’’آئیڈیاز‘‘ پر گفتگو نہیں ہوتی مگر جاوید چودھری اس مسئلے کو عمومی بنا کر خود جان نہ چھڑائیں۔ انہیں کالم لکھتے ہوئے اب پچیس سال تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ وہ ذرا بتائیں تو کہ خود انہوں نے گزشتہ پچیس برسوں کے دوران اپنے کالموں میں ’’Ideas‘‘ پر کتنی گفتگو کی؟ جاوید چودھری کے کالموں سے ثابت ہے کہ ان کے پسندیدہ رہنما میاں نواز شریف ہیں۔ ظاہر ہے جس شخص کا رہنما میاں نواز شریف ہو اسے ’’Ideas‘‘ سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ جاوید چودھری غلط نہیں کہتے کہ ہمارے یہاں تو پروفیسرز تک مطالعہ نہیں کرتے۔ چلیے جاوید چودھری اپنے بارے میں بتائیں کہ وہ کتنا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے کتنے علوم گھول کر پی گئے ہیں۔ جاوید چودھری کے کالموں سے تو لگتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک سنجیدہ مطالعہ شروع ہی نہیں کیا۔ جاوید چودھری سمیت ہمارے اکثر کالم نگاروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مدتوں سے اپنی ’’معلومات‘‘ لکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ لوگ اپنی ’’معلومات‘‘ کو ’’علم‘‘ نہیں بنا پاتے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر کالم نگاروں کا کوئی ’’تناظر‘‘ ہی نہیں۔ اب کہنے کو جاوید چودھری مسلمان ہیں مگر ان کی رال مغرب اور اس کے سیکولر اور لبرل کلچر پر ٹپکتی رہتی ہے۔ جاوید چودھری کا اگر کوئی متعین ’’اسلامی تناظر‘‘ ہوتا تو وہ ایک کمیونسٹ دانش ور کو اپنے کالم میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کر ہی نہیں سکتے تھے۔