وزیراعظم نے پھر فوج کو گھسیٹ لیا

416

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر پاک فوج کو موضوع گفتگو بنا دیا۔ وہ فوج کی حمایت کرنا چاہ رہے ہیں یا اس کے بارے میں اپنے مخالفین کو بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان فوج اور اپنے تعلق کا اتنی مرتبہ اظہار کر چکے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہو گئی ہے کہ فوج اور موجودہ حکومت ایک ہی ہیں۔ اتفاق سے فوج کے ترجمان اور سربراہ بھی کئی مرتبہ حکومت کے ساتھ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب وزیراعظم نے کہا ہے کہ فوج کا کوئی دبائو نہیں، خارجہ پالیسی کے فیصلے خود کرتا ہوں۔ البتہ پھر فوج کو گھسیٹتے ہوئے کہا کہ جو ٹیلیفون یا رابطہ کرتا ہوں آئی ایس آئی کو پتا ہوتا ہے۔ عمران خان کی گفتگو ہو اور یوٹرن یا یوٹرن کی بات نہ ہو کیسے ممکن ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہا کہ مقابلہ کرنے والا یوٹرن کا مطلب سمجھتا ہے اور ایک یوٹرن لیا کہ میں نے ایک کروڑ نوکریوں کی بات الیکشن سے پہلے کی تھی 2 نہیں پانچ سال میں نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اور یہ کہ جہانگیر ترین کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ان باتوں کے بعد بھی کوئی فوج پر تبصرہ نہ کرے تو یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ تو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنے مخالفین کو دعوت دی ہے کہ آئو اور فوج پر تنقید کرو۔ بلکہ ایک بار پھر انہوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹا بلکہ انداز بھی اچھا نہیں کہتے ہیں کہ فوج کا دبائو ہے نہ قبول کرتا ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر فوج کی جانب سے کسی قسم کا دبائو آئے اور عمران خان اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر اس الزام کو تقویت دی ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ جو ٹیلیفون اور رابطہ کرتا ہوں آئی ایس آئی کو اور فوج کو پتا ہوتا ہے۔ یہ بات انہوں نے نہیں بتائی کہ کیوں پتا ہوتا ہے۔ کیا ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جاسوسی کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا کہنے کا مطلب یہی ہے۔ وزیراعظم اپنے کام اور دعوئوں کے حوالے سے اپنے منشور کے حوالے سے بالکل بات نہیں کرتے۔ اس انٹرویو میں البتہ انہوں نے عجیب بات کی ہے کہ میں نے دو سال میں ایک کروڑ ملازمتوں کی بات نہیں کی تھی۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ لیکن دو سال میں تو ملازمتیں لاکھوں کی تعداد میں چھن گئی ہیں۔ ابھی چند روز قبل پاکستان اسٹیل سے ہزاروں لوگ نکال دیے گئے۔ باقی تین برس میں کس طرح ایک کروڑ ملازمتیں ملیں گی۔ ہوائی کیوں اڑاتے ہیں، وزیراعظم پرویز الٰہی کو ڈاکو کہنے اور اب حلیف بنانے کے سوال پر کہتے ہیں کہ آگے چلیں دوسرا سوال کریں۔ غرض وزیراعظم کا پورا انٹرویو تضادات سے بھرا ہو اہے۔ فوج پر الزام لگا کر وہ کہاں جاتے۔ اگلے روز آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ اس کی اطلاع آئی ایس آئی اور انہیں ہی ہوگی کہ وہاں کیا ہوا۔ بہرحال خبر تو یہی ملی ہے کہ ملکی حالات پر بات چیت ہوئی ہے۔ جو کچھ وزیراعظم نے کہا تھا وہ بھی تو ملکی حالات پر تبصرہ تھا۔ وزیراعظم نے جہانگیر ترین کے پی ٹی آئی کا عہدہ دار نہ ہونے کی بات کرکے وہی جملہ دہرایا ہے کہ تحقیقات ہو رہی ہے چینی اسکینڈل میں ملوث ہوئے تو سزا ملے گی۔ لیکن کب۔ بعد میں یہ نہ کہہ دیں کہ میں نے کب کہا تھا کہ میرے دور میں سزا ملے گی۔ عمران خان نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر تبصرہ کیا ہے کہ یہ ایک دکھ بھری کہانی ہے۔ کہانی تو واقعی دکھ بھری ہے۔ لیکن پاکستانی قوم تو ایسی دکھ بھری کہانیوں کی عادی ہوگئی ہے۔ وزیراعظم کو بہرحال کہانیاں سنانے کے بجائے کام کرنا چاہیے۔ نواز شریف حکومت کی اجازت سے گئے۔ عدالت نے صرف ای سی ایل سے نام نکالنے کو کہا تھا۔ وہ بھی ایک کیس میں حکومت کے پاس ہمیشہ یہ ہتھکنڈہ ہوتا ہے کہ کسی ایک کیس میں ضمانت ہوتے ہی دوسرے کیس میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔ دکھ بھری کہانی کا مزید دکھ بھرا پہلو یہ ہے کہ سوا دو برس میں شریف برادران اور زرداری فیملی سے ایک دھیلا برآمد نہیں ہو سکا۔ بلکہ احد چیمہ کو رہا کر دیا گیا تو پھر کس بات پر یقین کریں۔ پاکستانی قوم کو نواز شریف کے ملک سے باہر جانے والی دکھ بھری کہانی جیسا دکھ جنرل پرویز مشرف کے ٹہلتے ہوئے ملک سے چلے جانے پر بھی ہوا تھا۔ اور مزید دکھ اس پر ہوا کہ بھیجنے والے معصوم بن گئے۔ جب حکومت کا کام عدالت اور عدالت کا حکومت کرے گی تو یہی دکھ بھری کہانیاں سامنے آئیں گی۔ پاکستانی قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے حوالے کرنے کی دکھ بھری کہانی کو تو کئی برس سے سن اور دیکھ رہی ہے۔ قوم کو شرمندگی ہوتی ہے لیکن عافیہ میری بیٹی، میری بہن، قوم کی بیٹی کہنے والے حکومتوں میں آئے اور گئے لیکن عافیہ نہیں آئی۔ کوئی حکمران اس کو مجرم ثابت نہیں کر سکا لیکن عافیہ کو لانے کی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ دکھ تو اس پر بھی ہوتا ہے کہ توہین رسالت، توہین قرآن اور اسلام کے خلاف الٹے سیدھے اقدامات کرنے والے مزے سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں پھر وہاں جا کر اسلام اور پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں۔ اب جو اسرائیل کو تسلیم کرنے، بھارت کو کھلا راستہ دینے اور کشمیر پر عملاً سودا کرنے کے کام ہیں۔ وزیراعظم نے خود ہی کیے ہوں گے۔ ان پر فوج کو تو الزام نہیں دیں۔ وزیراعظم ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں۔ ملک کی سمت کا پتا تو دو برس میں چل جاتا ہے یہاں تو ایک دن کچھ اور دوسرے دن کچھ۔ مدینے کی ریاست کا نام لیا ہے تو مدینے کی سرکار کا والی سب دیکھ بھی رہا ہے۔ آئی ایس آئی تو چوک سکتی ہے اللہ تو نہیں چوکتا۔ اسے تو اونگھ بھی نہیں آتی۔ اس کی گرفت بھی سخت ہے اور بچنے کا راستہ بھی کوئی نہیں۔