حسد

151

آخری حصہ)
تو خیر، حسد کا پہلا مرحلہ ہے دوسرے کی کامیابی کا برا لگنا۔ یہ حسد کے خبیث درخت کا بیج ہے۔ میں اور آپ ایک جگہ انٹرویو دینے گئے، آپ منتخب ہو گئے، میں نہیں ہوا۔ اب مجھے اپنے منتخب نہ ہونے کا افسوس کم ہے اور آپ کی کامیابی کا رنج زیادہ۔ میں اپنی ناکامی تو برداشت کر لیتا ہوں مگر مجھ سے آپ کی کامیابی برداشت نہیں ہو رہی۔ یہ صورتِ حال ہو تو مجھے فورا سمجھ لینا چاہیے کہ حسد کا بیج میرے دل میں پڑ گیا ہے۔ اس بیج کو اگر اسی وقت نہ نکال پھینکا تو پھر میری ساری عمر حسد کے پیڑ کی زہریلی چھاؤں میں گزرے گی۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ میرے اندر یہ خواہش پیدا ہو جائے کہ انٹرویو میں کامیابی کے باوجود آپ کو تقرر کا خط نہ ملے اور آپ اپنی کامیابی کا پھل نہ کھا سکیں۔ اب حسد کا بیج پودا بن چکا ہے۔ اب اگر میری یہ خواہش پوری ہو جائے تو مجھے ایسی خوشی محسوس ہو جو اپنی کامیابی پر بھی نہ ہوتی ہو۔ یہ حسد کا تیسرا مرحلہ ہے، یہاں حسد مکمل ہو جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ آدمی دوسروں کے بارے میں اس طرح کا جزبہ اور رویہ رکھتا ہو تو وہ کسی بھی طرح کے تعلق کا اہل رہ جاتا ہے؟ تو مختصر یہ کہ حسد نام ہے خود غرضی کی شدت کی وجہ سے دوسرے کے نقصان کو محبوب رکھنے کا۔ یعنی میرا فائدہ دوسرے کے نقصان سے مشروط ہو جائے۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
حسد مزاج کی برائی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے خون میں کوئی زہریلی چیز گردش کر رہی ہو تو زہریلا پن پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک ایک جیسا رہے گا۔ اس لیے یہ خرابی پوری شخصیت کو تباہ کر دیتی ہے، اس کی زد صرف دو چار اعمال پر نہیں پڑتی اس کے نتیجے میں میرا عمل اچھا دکھائی دینے کے باوجود مبنی بر شر ہو جاتا ہے۔ اب چاہے میں خدمتِ خلق کروں یا وعظ کہوں یا درس دوں یا سجدہ کروں، یہ سب کا سب ایک زہریلے وجود کا اظہار بن کر رہ جائے گا۔
شکر کے بارے میں ابھی کچھ بات کی تھی، شکر بڑی ہی قیمتی چیز ہے۔ تمام نیکیوں میں معنی اسی سے پیدا ہوتے ہیں اور حسد کا علاج بھی اسی سے ہو گا۔ شکر گزاری محض یہ نہیں ہے کہ یا اللہ! تو نے مجھے دیا، اس پر تیرا شکر ہے۔ پوری شکر گزاری یہ ہے کہ یا اللہ!مجھے نہ دیا، کسی کو تو دیا۔۔۔ اس پر بھی تیرا شکر ہے۔ یعنی اللہ کے نعمت دینے کے عمل کو دیکھ لینا بھی موجبِ شکر ہے، اور پھر اس عمل میں خود کو بھی شامل دیکھنا، یہ بھی باعثِ تشکر ہے۔ اب مجھے پتا نہیں ہے کہ اس میں سے کون سا شکر زیادہ شدت کے ساتھ ابھرتا ہے تہِ دل سے۔ مجھے یہ پتا لگانا مشکل ہو جائے تو میں واقعی شکر گزار بندہ ہوں۔ اسی طرح مجھے ایک تکلیف ہے اور آپ بھی کسی تکلیف کا شکار ہیں۔ میری حالت بگڑتی جا رہی ہے مگر آپ ٹھیک ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اگر میرے دل سے یہ آواز نکلے کہ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تیرے فضل سے فلاں صاحب کی تکلیف دور ہو گئی، سچ ہے کوئی تکلیف تیرے دستِ رحمت اور دائرۂ قدرت سے باہر نہیں ہے۔ تیرا شکر ہے کہ تو نے اس حقیقت کو مجھے بھی دکھا دیا۔ تو سمجھ گئے ناں کہ شکر کی اساس اس یقین پر ہے کہ سب نعمتیں اللہ دیتا ہے، چاہے وہ نعمتیں میرے حصے میں آئی ہوں یا نہ آئی ہوں۔ تو جو شخص دوسروں کی کامیابی کو اس طرح نہیں دیکھتا کہ گویا اس کی کامیابی نے مجھ پر شکر واجب کر دیا ہے، وہ بھلا آدمی نہیں ہے۔ ایک دوست کامیاب ہوتا ہے تو سب دوستوں پر شکر واجب ہو جاتا ہے، ایک بیمار اچھا ہو جائے تو سب بیماروں کو شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک نادار مالدار ہو جائے تو سب ناداروں کو الحمدللہ کہنا چاہیے۔
حسد کا جو علاج بتایا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کی کامیابی یا خوشی یا خوشحالی یا بلند استعدادی یا ناموری یا مقبولیت ناگوار گزرنے لگے تو اسی وقت دعا کی جائے کہ یا اللہ اس شخص پر اور فضل فرمائیے، اسے اور آگے لے جائیے۔ ایسی دعا کی عادت ڈال لی جائے تو ان شااللہ حسد کا مادہ نفس سے نکل جائے گا، طبیعت سے خارج ہو جائے گا۔ جس سے حسد محسوس ہو یا حسد کا اندیشہ ہو، اس کی لوگوں میں تعریف کرنے سے بھی آدمی حاسد بننے سے بچ سکتا ہے۔