آخری قسط
اگر سعود ساحر کا ذکر نہ کروں تو کوچہ صحافت کا ذکر بھی بے کار ہوگا۔ سعود ساحر سے بھی جسارت کے توسط سے ملاقات ہوئی۔ جب کبھی وہ کراچی آتے جسارت کے دفتر ضرور آتے، یہیں سے ان سے بات چیت، ملاقات اور دلچسپی پیدا ہوئی اور ہمارے چلبلے جملوں پر نہ صرف داد دیتے بلکہ ہمت افزائی بھی کرتے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے ہم 1984ء میں شفٹ انچارج بن گئے تو سعود ساحر ہمیں اپنا افسر کہنے لگے۔ سعود صاحب کے ساتھ جتنا بھی وقت گزرتا معلومات میں اضافہ ہی ہوتا تھا۔ ان کے اپنے واقعات میں بھی بہت سی باتیں تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔ لیکن سعود ساحر کے بڑا صحافی ہونے یا ان کے بارے میں بڑے لوگوں کی رائے سن کر یقین پختہ ہوا کہ سعود ساحر کا مقام کیا تھا۔ جس روز سعود ساحر کا انتقال ہوا اسی روز اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی کے بھائی اعجاز حسن قریشی کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ ہم نے الطاف صاحب کو فون کیا اعجاز صاحب کے انتقال پر تعزیت کی۔ حسب عادت انہوں نے پوچھا کہ آج کل کہاں ہیں آپ؟ ہم نے کہا جسارت میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ارے سعود ساحر کا بھی تو انتقال ہوگیا ہے۔ بڑا بہادر صحافی تھا۔ ایک دور تھا گزر گیا۔ ہم کو تو سعود کی وجہ سے ڈھارس رہتی تھی۔ ایسے رپورٹر اور لکھنے والے بڑی مشکل سے ملیں گے۔ ہم نے اعجاز صاحب کے لیے دعا کی اور فون رکھنے لگے۔ تو انہوں نے کہا کہ میری طرف سے بھی سعود ساحر کے انتقال پر تعزیت، بلکہ آپ سے تعزیت کرتا ہوں۔ سعود صحافت میں جسارت کی شناخت تھے۔ ان کی یہ بات درست ہے اس لیے الطاف حسن قریشی صاحب اپنے بھائی کی تعزیت چھوڑ کر سعود ساحر کی تعزیت کرنے لگے۔
سعود ساحر صاحب اکثر اپنے واقعات سناتے تھے ان میں رپورٹرز کے لیے کوئی نہ کوئی رہنمائی ضرور ہوتی تھی۔ بتانے لگے کہ میں پروفیسر غفور سے ملنے ان کے دفتر گیا جب وہ وفاقی وزیر تھے۔ دروازے پر کوئی نیا سیکرٹری بیٹھا تھا اس نے کہا صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں۔ ہماری اس کی تکرار ہوگئی۔ یہ سن کر غفور صاحب کمرے سے باہر آگئے۔ کیا مسئلہ ہے سعود۔ سعود صاحب کی آواز بھاری اور کراری تھی اس وجہ سے جلد ہر جگہ پہنچتی تھی۔ سعود صاحب نے کہا کہ غفور صاحب آپ تو پہلے ہی بڑے آدمی ہیں لیکن میں اس کو بتارہا تھا کہ ہمارے وزیر اور افسر ہماری وجہ سے بڑے نظر آتے ہیں۔ ہم ان کی وجہ سے صحافی نہیں۔ سب سے زبردست واقعہ تو وہ تھا جب راولپنڈی پریس کلب سے جوئے اور شراب کا خاتمہ کیا گیا۔ اس کام میں کچھ نوجوانوں کی بھی مدد لی گئی، یہ تعلیمی اداروں کے اسلام پسند طلبہ تھے۔ کام تو سارا صحافیوں نے کیا طلبہ کی موجودگی سے دہشت زیادہ بیٹھ گئی لیکن شراب اور جوئے کا سارا سازو سامان باہر پھینک کر کلب کو صاف کیا گیا تاہم یہ نوجوان دھر لیے گئے۔ اچھی خاصی ہلڑ بازی ہوئی تھی۔ جنرل ضیا الحق کی ایک عادت تھی انہوں نے کراس چیک کرنے کے لیے اگلی صبح سعود ساحر کو فون کیا۔ صبح صبح ایوان صدر سے فون آیا۔ ہولڈ کریں سعود صاحب ہی بول رہے ہیں۔ جی لائن پر رہیے گا جنرل ضیا الحق بات کریں گے۔ پھر جنرل صاحب لائن پر آئے۔ ارے سعود ساحر صاحب یہ راولپنڈی پریس کلب میں کیا ہنگامہ ہوا ہے میں نے سنا ہے سب آپ نے کرایا ہے۔ سعود ساحر نے اطمینان سے جواب دیا کہ جی میں نے آپ ہی کے حکم پر کرایا ہے۔ اب جنرل ضیا کے چونکنے کی باری تھی۔ کہنے لگے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ سعود ساحر نے کہا کہ جناب کا حکم ہے کہ پاکستان میں اسلام اور نظریہ پاکستان کے مخالفین کے لیے زمین تنگ کردی جائے!!۔ سو ہم نے زمین تنگ کردی۔ اب مہربانی فرما کر بچوں کو رہا کروادیں۔ وہ تو صرف اخلاقی سپورٹ کے لیے آئے تھے۔ اور تھوڑی دیر میں بچے یعنی نوجوان گھروں پر تھے۔ سعود ساحر کی ذات سے متعلق تو بہت سے واقعات ہیں لیکن جو بات صحافیوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے وہ یہی ہے کہ اپنے پیشے سے مخلص رہا جائے، محنت کی جائے، معلومات مکمل رکھی جائیں۔ ایک پرانی بات انہوں نے شیئر کی۔ گو اس وقت بھی لاپتا کرنے کا طریقہ تھا لیکن ایسا عام نہیں تھا جیسا آج ہے۔ ایوب خان کا زمانہ تھا سعود ساحر خبر لے کر ایڈیٹرکے پاس گئے۔ انہوں نے خبر دیکھی حساس معاملہ تھا۔ کہنے لگے کسی اور کے پاس ہے۔ سعود ساحر نے کہا نہیں صرف میرے پاس ہے۔ ایڈیٹرصاحب نے کہا ایک سے زیادہ اخباروں میں دے دیں۔ سعود ساحر نے چپ چاپ دو اخباروں میں خبر دے دی۔ اگلے دن خفیہ ایجنسی والے تینوں اخبارات میں پہنچے اسی روز شام کے تین اخبارات میں خبر چھپ گئی۔ اب ایجنسی والے خاموش ہوگئے۔ ایڈیٹرصاحب نے سعود صاحب کو بلایا اور کہا کہ اکیلے چھاپتے تو اکیلے بھگتتے۔ اب سب ساتھ ہیں ان کو ہمت نہیں ہوئی۔ آج کل کے بائی لائن کے شوقین رپورٹرز کے لیے اس میں اب بھی سبق ہے۔
سعود ساحر صاحب سے ایک دفعہ گزارش کی کہ دستوری ترامیم سے متعلق تجزیہ لکھیں انہوں نے معذرت کرلی کہ مجھے تمام ترامیم زبانی یاد نہیں البتہ آئینی ماہرین سے گفتگو کرکے اپنی رائے شامل کرسکتا ہوں۔ پہلے مجھے اس بارے میں پڑھنے دیں۔ چناں چہ دو تین دن مطالعہ کے بعد انہوں نے اس موضوع پر کام کیا۔ وہ کہتے تھے کہ فکشن لکھنا اور خبر بنانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ آج کل کے ایک بڑے لکھاری اور ٹی وی کے تجزیہ نگار کے بارے میں انہوں نے یہی جملے لکھے تھے کہ وہ اپنی خواہش کو خبر بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالاں کہ وہ فکشن ہے اور اس میں موصوف ماہر ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج کل بی بی سی کے خلاف ایک نوٹس اور احتجاجی مراسلہ گردش کررہا ہے کہ اس نے کسی سیاسی رہنما کی خواہش کو خبر بنانے کی کوشش کی ہے اور اپنی خواہش کو یا کسی کی خواہش کو خبر بنانا بددیانتی اور صحافتی اخلاقیات کے اعتبار سے جرم بھی ہے۔ آج کل تو خبر اس کو کہتے ہیں جس میں کسی کی خواہش کو خبر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ سعود ساحر جسارت سے گئے بلکہ نکالے گئے لیکن اس واردات کا قصہ مزے لے لے کر سناتے کہ مرحوم معظم قادری صاحب اسلام آباد تشریف لائے۔ بیورو کی میٹنگ کی، ہماری مشکلات سنیں، پھر نماز اور کھانے کا وقفہ ہوا۔ اس کے پہلے سیشن کی صدارت مجھے (سعود ساحر) کو کرنے کا حکم دیا گیا پھر وقفے کے بعد فرمایا کہ اب میں صدارت کروں گا۔ ایک ایک کرکے فراغت کے لیٹر تقسیم کیے۔ سعود صاحب نے بتایا کہ پھر میری طرف مڑے، آپ ابھی فارغ نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ کو دفتر خالی کرانا ہے سامان ٹھکانے لگانا ہے۔ اس کا حساب کتاب کرنے کے بعد آپ فارغ۔ سعود ساحر نے ہمیشہ ہنس
ہنس کر بتایا کہ لوجی اپنی قبر آپ کھودو، اپنی تجہیز و تکفین اور تدفین اور آخری رسوم کرو۔ خوب حکم دیا۔ لیکن اس کے اگلے ماہ سے سعود ساحر کو خصوصی تجزیے، نیوز انالسز لکھنے کی ہدایت کی اور اس کا معاوضہ اتنا ہی دیا جتنی ان کی تنخواہ تھی۔ سعود صاحب جسارت کے اچھے وکیل بھی رہے۔ جہاں بھی جب بھی موقع ملتا بتاتے تھے کہ ویج ایوارڈ کے نفاذ میں جسارت سب سے آگے رہتا ہے۔ جب میرا حساب کتاب ہوگیا تو چند ماہ بعد جسارت سے فون آیا کہ آپ کے حساب میں مزید چند ہزار (رقم یاد نہیں) نکل آئے ہیں۔ وہ ہم بھجوا رہے ہیں۔ اکائونٹنٹ نے معذرت بھی کی۔ سعود صاحب ہر جگہ یہ بات بتاتے رہے۔ سعود ساحر نے صحافتی دنیا میں بڑے کارنامے کیے ہیں ایک دو اور نذر ہیں ۔ جب جنرل ضیاء الحق نے فوجی کارروائی کی اور اقتدار سنبھالا تو دو روز بعد پریس کانفرنس بلائی اور90روز میں انتخابات کی بات کی اور نظام مصطفی کی، تو سعود ساحر نے کہا کہ آپ سنجیدہ ہیں نظام مصطفی کے معاملے میں جنرل ضیاء نے برا مناتے ہوئے کہا کہ اتنا بڑا قدم5جولائی کو اٹھایا ہے آپ پوچھ رہے ہیں سنجیدہ ہیں ۔ اس پر سعود ساحر نے کہا کہ آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے سیکرٹری صاحب کے ہوتے ہوئے تو آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ وہ صاحب اس کے وقت کے سیکرٹری اطلاعات تھے ۔ چائے کے دوران مجیب شامی صاحب سے ضیاء الحق نے کہا کہ یہ کون پاگل تھا۔ اس پر شامی صاحب قریشی صاحب نے سعود ساحر کو بلایا اور کہا کہ ایسے ہی پاگلوں کی مدد سے بھٹو سے جنگ لڑی ہے ۔ اس دن سے سعود صاحب کو جنرل ضیاء اچھی طرح جاننے لگے ۔ سعود ساحر کو پتا چلا کہ چینی صحافی ملا عمر سے ملنے جا رہے ہیں ۔ چینی صحافیوں نے پوری ملاقات میں صرف ایک سوال پوچھا کہ افغانستان میں آپ کی امارت قائم ہے کیا آپ اس کا رخ چین کی طرف بھی کریںگے ۔ اس پر ملا عمر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اپنے ممالک تک محدود ہیں ۔ یہ بات مکمل ہوتے ہی چینی صحافی اُٹھ گئے اور واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ۔ سعود ساحر بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ لانے والوں نے بہت ڈرایا لیکن وہ واپس آ گئے اور آتے ہی رپورٹنگ کی کہ چین کو افغان انقلاب سے کوئی خطرہ نہیں ۔ سعود صاحب شاہ جی کے نام سے زیادہ پہچانے جاتے تھے ۔ وہ واقعی صحافت کے شاہ تھے ۔سعود ساحر کے انتقال سے کوچہ صحافت کی ویرانی وحشت انگیز اور ہولناک ہوگئی ہے۔ گویا اطہر ہاشمی، سعود ساحر، قیصر محمود، شکیل حسین قبر میں نہیں گئے۔ کوچہ صحافت قبرستان بن گیا۔