جدید قومی ریاستوں کے ’’بے ریاست‘‘ شہری

111

کرہ ارض پر انسان صدیوں سے مختلف گروہوں، قبائل اور قوموں کی شکل میں آباد ہے، جن کی مختلف زبانیں، ثقافت اورطرز بودو باش تھی۔ روایتی طرز کی سلطنتوں اور ریاستوں میں مختلف قبائل اور قومیں باہم مل کر رہتی تھیں لیکن چند صدیوں قبل جب یہ تصور عام ہوا کہ کسی خاص علاقے میں رہنے والی قوم ہی کا حق ہے کہ اس علاقے کے وسائل پر تصرف حاصل کرے اور کسی دوسری قوم کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں تو حق خود ارادیت اورقومی خود مختاری کے تصورات تشکیل پائے۔ مشترکہ ثقافت، نسل، جغرافیائی محل وقوع، زبان، مذہبی روایات و تاریخ، سماجی خصوصیات، سیاسی معیشت وغیرہ پر مبنی قومی شناخت کی تشکیل ہوئی اور پھرجب قومی خود مختاری کے لیے تحریکیں چلیں تو اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے قومی ریاستیں وجود میں آئیں۔
جدید قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں آسٹریا کی سلطنت، برطانیہ، فرانس، ہنگری کی بادشاہت، روسی سلطنت، پرتگالی سلطنت، ہسپانوی سلطنت، اسلامی دنیا میں خلافت عثمانیہ، ایرانی سلطنت اور ہندوستان میں مغل سلطنت وغیرہ مشہور تھیں اور ان کے علاوہ کئی اور بھی چھوٹی بادشاہتیں موجود تھیں۔ قومی تحریکیں اس تصور پر اٹھیں کہ روایتی سلطنتوں اور باشاہتوں میں ایک خاندان یا نسلی گروہ کا تسلط ہوتا ہے اوردیگر قومیتوں کو ریاست کے وسائل پر تصرف کا حق اس طرح حاصل نہیں ہوتا جس طرح حکمران خاندان یا گروہ کو ہوتا ہےاور قومی ریاستیں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی میں قومی اتحاد کے اصول کے تحت تمام شہریوں کو برابری اور مساوات کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، معاشی حقوق دیں گی، لیکن قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد طاقتور ریاستوں میں کمزور ریاستوں کے علاقوں اور وسائل پر قبضے کی مسابقت شروع ہو گئی اورطاقتور ریاستوں نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں بے شمار کمزور اقوام کو غلام بنا کر انہیں نوآبادیاتی کالونیوں کی شکل دے دی۔
بعد ازاں طاقتور اقوام میں معاشی مسابقت اور کمزور اقوام پر قبضے کی ہوس، جنگ عظیم اول، دوم کی ہولناک جنگوں کی شکل اختیار کر گئی جس میں لاکھوں معصوم افراد کو ایندھن بنایا گیا۔ ان ہولناک جنگوں کے بعد قومی ریاستوں نے انسانیت کو صفحہ ہستی سے مٹادینے والاجدید اسلحہ، جبر، تشدد، دہشت گردی، منافرت، لسانیت، فرقہ واریت، ماحولیاتی آلودگی، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں، مہنگائی، بیروزگاری، جنسی بے راہ روی، خاندانی نظام کی تباہی، جرائم، خودکشی، جیلوں میں اذیت ناک ماحول اور انسانیت سوز سزائیں اور درندگی کے نہ جانے کیا کیا تحفے دیے۔ ان سب میں غیر انسانی سب سے بڑا بہیمانہ تحفہ انسانوں کو ‘بے ریاست ‘ کرنے کا ہے۔
اس کی سب سے بنیادی قسم وہ ہے جب کسی قوم کے افراد سے ان کی ریاست چھین کر انہیں بے شناخت کیا جاتا ہے اور ان کی ریاست پر کوئی دوسری طاقت قبضہ کر لیتی ہے۔ سامراجی دور میں برطانیہ، فرانس، روس اور کئی دیگر طاقتور ریاستوں نے جب اپنی سرزمین سے باہر اثر و رسوخ بڑھایا اور اس کے نتیجے میں نوآبادیاتی کالونیوں کی خودمختاری ختم ہو گئی تووہ قومیں بے ریاست ہو گئیں۔ بہت سی قومیں اس وقت بھی بے ریاست ہوئیں جب سامراج نے اپنی بد انتظامی کے نتیجے میں معاشی مسائل کا شکار ہو کر مقبوضہ علاقوں سے بوریا بستر لپیٹا اور اپنے مستقبل کے مفادات کے تحت بہت سی قوموں کےجغرافیے کو کئی ممالک میں تقسیم کر دیا۔ اس طرح کئی اقوام مختلف ممالک کے اندر ٹکڑوں میں بٹ گئیں اور ان کی ثقافت، روایات اور شناخت پسماندگی کا شکار ہو گئیں۔
بے ریاستی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سامراج نےقبضہ ختم کرتے وقت جان بوجھ کر کچھ چھوٹی ریاستوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تاکہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ سودے بازی کرکے ان پر قبضہ کروایا جا سکے۔ پنجاب مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں بانٹ دیا گیا تاکہ پاکستان کے آبی وسائل ہندوستان کے کنڑول میں رہیں اور بوقت ضرورت ہندوستان پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرنے کی پوزیشن میں رہے۔ ہندوستان کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کشمیر، حیدر آباد دکن، جونا گڑھ وغیرہ پر قبضہ کر ے اور کئی دیگر چھوٹی قوموں مثلاً مسلمان، سکھ اور گورکھوں وغیرہ کو خود مختاری نہ دے۔ سلطنت عثمانیہ کو کئی چھوٹی قوموں ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور فلسطینیوں کو اپنے علاقے سے بے دخل کرکے وہاں ایک غیر قانونی ریاست اسرائیل کی شکل میں قائم کر دی گئی۔ اسی طرح تبت اور سنکیانک کو چین نے اپنی ریاست میں ضم کر لیا، روہنگیا میانمر کے قبضے میں آگئے، کردوں کو ایران، شام، ترکی اور عراق میں تقسیم کر دیا گیا۔
1971ء میں جب سقوط ڈھاکا ہوا اور بنگلا دیش ایک الگ ملک بن گیا تو تقریباً 5 لاکھ بہاریوں کو بے ریاست کر دیا گیا جو آج تک کیمپوں میں پناہ گزیں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان نے بنگلا دیش سے مطالبہ کیا کہ چونکہ بنگلا دیش، مشرقی پاکستان کی جانشینی ریاست ہے، اس لیے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ بہاری لوگوں کو اپنی ریاست میں شامل کرے جیسے مغربی پاکستان نے اس خطے میں رہایش پذیر تمام اقوام کو ریاست پاکستان میں شامل کیا لیکن تاحال بنگلا دیش نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اسی طرح نیپال میں ایک لاکھ سے زیادہ بھوٹانی پناہ گزیں ہیں، جن کے پاس بھوٹانی شہریت ہے نہ نیپال انہیں اپنا شہری تسلیم کرتا ہے۔
بے ریاستی کی ایک بڑی مثال وہ امتیازی سلوک ہے جو کچھ ریاستیں اپنے مخصوص شہریوں سے اب کی نسل، رنگ، زبان، مذہب یا ثقافت کی بنیاد پر روا رکھنے لگی ہیں اور جس کی بنیاد پر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں کو ملکی شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس امتیازی سلوک کے خلاف بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمے کے بارے میں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے یکم اکتوبر 2014ء کو کہا کہ ’’نسل، رنگ، قوم، زبان یا مذہب کی بنیاد پر شہریت سے محروم کرنا اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو تمام ریاستوں نے کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کو یقینی بنائیں گی‘‘ لیکن بہت سی طاقتور ریاستیں اقوام متحدہ کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتیں اور اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔
قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل قومیت اور شہریت کے سخت قوانین موجود نہیں تھے، اس لیے کسی بھی علاقے کے لوگ دنیا کے کسی بھی خطے میں آسانی سے جا کر رہایش اختیار کر سکتے تھے اور بے شمار ایسی قومیں تھیں، جن کی اپنی کوئی الگ ریاست نہیں تھی لیکن پھر بھی انہیں اپنے رہایش پذیر علاقوں میں تمام سہولتوں سے فیض یاب ہونے کی سہولتیں میسر تھیں، تاہم اب ایسی پسماندہ قوموں کو اپنے ہی علاقے میں بے ریاست کر دیا جاتا ہے اور ان کی حالت اب جانوروں سے بھی بدتر ہو چکی ہے کیونکہ بڑی طاقتوں کی طرف سے دیگر ریاستوں پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہےکہ وہ ان لوگوں کو پناہ گزینوں کے طور پرقبول نہ کریں۔
اقوام متحدہ کے مطابق بے ریاست شہریوں کی شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور کسی بھی ملک کی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے بے ریاست افراد کو جائداد رکھنے، بینک اکاؤنٹ کھولنے، قانونی طور پر شادی کرنے اور بچوں کی پیدایش کے اندراج جیسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی افراد کو طویل عرصے تک حراست میں رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ کون ہیں اور ان کا تعلق کس خطے سے ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے ہی علاقے میں اجنبی بن گئے ہیں۔ یہ لوگ جس ملک میں پیدا ہوئے، جہاں پرورش پائی، وہی ملک ان سے کسی نسلی یا مذہبی امتیاز کی بنا پر شہریت سے انکار کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور ان میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔
1954ء میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے بے ریاست افراد کے ساتھ کم سے کم معیار کا سلوک قائم کرنے کے لیے ایک کنونشن لایا گیا، جو بے ریاست افراد کو تعلیم، روزگار، رہایش، شناخت، سفری دستاویزات اور انتظامی مدد کا حق دیتا ہے۔ 1961ء میں ایک نیا کنونشن لایا گیا جس میں شہریت کے لیے ہر بے ریاست فرد کے حقوق یقینی بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک قائم کیا گیا۔ اس کنونشن میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر والدین نے کوئی دوسری قومیت حاصل نہیں کی تو بچوں کو اسی ملک کی شہریت حاصل ہوگی جس میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ کنونشن بے ریاستی کی روک تھام کے لیے اہم حفاظتی اقدامات کا تعین بھی کرتا ہے۔ دنیا بھر کے 66 ملکوں نے ابھی تک اقوام متحدہ کے 1954ء کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں جس میں بے ریاست افراد کے ساتھ برتاؤ کے کم سے کم معیار مقرر کیے گئے ہیں جبکہ صرف 38 ممالک اقوامِ متحدہ کے 1961ء کے کنونشن کے ارکان ہیں جس میں بے ریاست افراد کی بے وطنی کم کرنے کے لیے قانونی دائرہ کار کا تعین کیا گیا ہے۔
بھارت، بنگلا دیش اور میانمر نے اقوام متحدہ کے ان کنونشنوں میں سے کسی ایک پر بھی دستخط نہیں کیے، تاہم ان کنونشنوں پر دستخط کرنے کے باوجود بھی یہ کنونشن ایسے مواقع کا تعین بھی کرتے ہیں کوئی ریاست کسی شخص کو اس کی شہریت سے محروم کر سکتی ہے، خواہ اس کے نتیجے میں وہ بے ریاست ہو جائیں۔ اب تک کئی ریاستیں اپنے علاقے کے مکینوں کے ساتھ یہ کارروائی کر چکی ہیں جن میں بھارت اور میانمر سر فہرست ہیں۔ بھارت انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 20 لاکھ آسامی مسلمانوں اور میانمر 6 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو بے ریاست کر چکا ہے۔
یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں کی آمد سے قبل ایشیا میں جغرافیائی سرحدوں کا کوئی واضح تعین نہیں تھا۔ اس وقت علاقائی سطح پر ترک وطن عام تھا کیونکہ خود مختار نوابی ریاستوں کے مابین غیر واضح اور ڈھیلی ڈھالی سرحدیں تھیں۔ قومی ریاستیں وجود میں آنے کے بعد اب دنیا میں کوئی ایک چپہ بھی ایسا نہیں ہے جو کسی ریاست کے قبضے سے باہر ہو اور جہاں کوئی بے ریاست قوم یا گروہ تصرف حاصل کر سکتا ہو۔ جنوبی ایشیا میں 1945ء سے لے کر 1950ء تک کے عرصے میں قائم ہونے والی نئی ریاستوں کو جلد از جلد شہریت سے متعلق نئے قوانین اپنانا تھے۔ ان ممالک نے انتہائی معمولی یا کسی بھی ترمیم کے بغیر ہی زیادہ تر وہی قوانین اپنا لیے، جو پہلے سے موجود اور نوآبادیاتی طاقتوں کے بنائے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے شہریت سے متعلق قوانین کے باعث بھی کئی مسائل پیدا ہوئے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں آج بھی لاکھوں انسانوں کے پاس ایسی قانونی دستاویزات موجود ہی نہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی مقامی شہریت ثابت کر سکیں۔ وہ جنہیں بے وطن سمجھا یا قرار دیا جاتا ہے، زیادہ تر ترک وطن یا نقل مکانی کے پس منظر والے ایسے غریب انسان ہیں، جن کی اپنی کوئی زمینیں یا دیگر املاک نہیں۔
بھارت نے آسام میں ‘شہریوں کے قومی رجسٹر‘ یا این آر سی کی تازہ فہرست جاری کی ہے، جس میں آسام میں برسوں سے رہنے والے مسلمان شہریوں کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہ غیر قانونی اور غیر ملکی قرار دیے جانے والے 20 لاکھ افراد عملی طور پر بے وطن ہو چکے ہیں اور اگر وہ اپیل کرنے کے بعد بھی اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے تو انہیں ملک بدری، گرفتاریوں اور حراست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے انسانی اخلاقیات سے گر کر ستمبر میں اپنے دورہ آسام کے دوران یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ان در اندازوں کو ایک ایک کر کے اٹھائے گی اور انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
بھارت کے اس انسانیت سوز عمل کے خلاف آسام میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور اب تک لاتعداد مظاہرین کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ مظاہرین کی طرف سے ہلاکت سے بچنے کے لیے کی گئی مزاحمت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان مظاہروں میں 50 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ متنازع اور ہندو نواز قانون باہر سے آنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو تو سہولت دیتا ہےلیکن یہ قانون انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ خاص طور پر امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے ہندو انتہا پسند وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے ان سے ‘انتقام لیا جائے گا اور ‘سرکاری املاک کے ہرجانے کے طور پر ان کی جائداد کی قرقی کی جائے گی۔ ‘پولیس نے ان کے حکم پر عمل کیا ہے اور ‘مطلوب افراد کی نشاندہی کے بعد، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، ان کے پوسٹر پورے کانپور میں چسپاں کروا دیے ہیں۔
بھارت کی موجودہ ہندو انتہاپسند حکومت آسامی مسلمانوں کی طرح کشمیر یوں کو بھی بے وطن کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں دہشت گرد ہندو تنظیموں اور ان کی سرپرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کٹھ پتلی وزیر اعظم نریندر مودی، فلسطین پر قابض صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسلام دشمنی پر ہٹ دھرمی دکھانے والے فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں میں خوب گٹھ جوڑ چل رہا ہے۔ مودی اور ماکروں اسرائیل کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں، جن میں کشمیری، آسامی اور الجیریائی بھی شامل ہیں، کو اسی طرح بے ریاست اور بے وطن کرنا چاہتے ہیں جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے وطن کیا۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل کشمیر ایک آزاد ریاست تھی اور یہاں کی 90 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تقسیم کے وقت کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے لیکن بھارت نے فوجی مداخلت کرکے وادی کشمیر، جموں اور لداخ پر قبضہ کرلیا اور دیگر علاقوں نے ایک نیم خود مختار ریاست کی شکل میں پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ لداخ کا کچھ علاقہ، اسکائی چن اور بالائے قراقرم کا علاقہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قرادادوں کے تحت کشمیری قوم کا حق خود ارادیت تسلیم کیا ہے لیکن بھارت اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر آج تک اڑا ہوا ہے۔ ایک سال قبل بھارت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور اس کو 2 یونین ٹریٹری جموں اور لداخ میں تقسیم کر دیا ہے۔
5 اگست 2019ء سے وادی، جموں اور لداخ میں بھارتی کرفیو نافذ ہے اور وہاں بھارتی فوج مسلسل دہشت گردی میں مصروف ہے۔ 9 لاکھ بھارتی فوج نے نہتے کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق معطل کیے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں مجبور اور بے بس کشمیری اپنے گھروں میں قیدیوں جیسی زندگی گزار رہےہیں۔ کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔ صحت و علاج کی سہولتیں مفقود ہیں اور کشمیریوں کی آواز کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا، ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور عالمی مبصرین کا داخلہ کشمیر میں بند کر دیا گیا ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ بھارت نے جموں کشمیر میں ڈومیسائل کے نئے قوانین نافذ کردیے ہیں، جن کے تحت بھارتی شہریوں کو کشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے اور زمینیں اور جائدادیں خرید کرکشمیریوں کو فلسطینیوں کی طرح بے وطن کرنےکا راستہ ہموار کر دیا ہے اور عالمی ضمیر اس صورتحال پر مسلسل خاموش تماشائی کی طرح بے حسی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
بھارت کی طرح میانمر کی فوج نے بھی سخت مظالم ڈھاتے ہوئے 6 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے پر مجبور کر دیا ہے جہاں وہ ریاست راکھائن میں رہایش پذیر تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق ان مسلمانوں کے گھر بار، گاؤں، مویشی جانور اور کھیت، سب کھچ نذر آتش کردیا گیا ہے تاکہ وہ ملک میں واپس نہ آئیں۔ وہ روہنگیا مسلمان جو ان مظالم سے بچنے کے لیے پڑوسی ملک بنگلا دیش کی جانب نکلے، میانمر کے حکام سیکورٹی نافذ کرنے کے لیے آپریشن کے نام پر ان شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں اورعورتوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ بنگلا دیش میں اقوام متحدہ کے تعینات سفیر کے مطابق اب تک 6 لاکھ افراد سرحد عبور کر کے میانمر سے بنگلا دیش داخل ہو چکے ہیں۔ ان روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک ہفتے سے زائد عرصے تک غذا کے بغیر پیدل چلنا پڑا جس کے بعد بالآخر وہ بنگلا دیش تک پہنچے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ میانمر کے سیکورٹی اہلکاروں نے جان بوجھ کر روہنگیا پناہ گزینوں کے پیدل چلنے والے سرحدی راستے میں بارودی سرنگیں نصب کی تھیں جس سے ان کا سفر اور بھی خطرناک ہو گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق بہت سے روہنگیا مسلمانوں کو 3 ہفتے تک مسلسل چلنا پڑا تھا، جس کے بعد وہ بنگلا دیش میں حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے پناہ گزین کیمپ تک پہنچ سکے تھے۔ اس کٹھن اور موت کے راستے جیسے سفر میں اب تک درجنوں یا سیکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اخبار ڈھاکا ٹریبیون کے مطابق 24 اگست سے اب تک 28 کشتیاں ڈوب چکی ہیں جن میں 184 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بنگلا دیش کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کریں گے جہاں 80 ہزار روہنگیاؤں کو رہنے کی جگہ میسر ہو سکے گی۔ میانمر سے جان بچا کر بھاگنے والوں کے مطابق راکھائن ریاست میں کھانے کی قلت کی وجہ سے ان کو بھاگنا پڑا تھا کیونکہ وہاں موجود کھانے کی دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کیمپوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب خواتین موجود ہیں جو ماں بننے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے 24 ہزار خِواتین حاملہ ہیں اور ان کے پاس کھلے مقامات یا سڑکوں پر اولاد جنم دینے کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
روہنگیا اور آسامی مسلمانوں کی طرح فلسطینی مسلمان بھی اس وقت سے پناہ گزینی اور بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، جب برطانوی سامراج نے امریکا کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے تو یورپ کے لاکھوں یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر لا کر بسایا۔ ان یہودیوں نے سامراج ہی کی پشت پناہی سے اسرائیل کی غیر قانونی ریاست قائم کرنے کے بعد اس میں توسیع کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو صدیوں سے رہایش پذیر علاقوں سے بے دخل کرتے ہوئے بے ریاست کر دیا۔ اس وقت 2 لاکھ سے زائد فلسطینی یورپ میں پناہ گزیں ہیں اور باقی ماندہ اُردن، لبنان، شام اور غزہ کی پٹی میں بے وطن اور محصور ہیں۔ جن علاقوں میں فلسطینی رہایش پذیر ہیں، عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ وہاں کے شہری ہیں حالانکہ وہ وہاں پناہ گزیں کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کو اوسلو معاہدوں کے تحت فلسطینی پاسپورٹ جاری کر دیے گئے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی قانونی حیثیت کو 2018ء میں کسی حد تک تسلیم کیا گیا تھا۔ کچھ ممالک ان کی سفری دستاویزات کو تسلیم کرتے ہیں، تاہم ان کی فلسطینی شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا کیوں کہ صرف ان شہریوں کی شہریت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی باقاعدہ ریاست کے شہری ہوتے ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں ہے۔ یہ 2012ء سے اقوام متحدہ کی محض nonmember observer state ہے اور اسے بہت سے ممالک کی طرف سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا فلسطینی جہاں بھی رہایش پذیر ہیں بے وطن اور بے ریاست ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی بے وطن کُرد قوم ہے، جس کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہے۔ ان میں سے 20فیصد کے لگ بھگ ترکی میں رہایش پذیر ہیں، 20 سے 25 فیصد عراق میں، 10 فیصد ایران میں اور تقریباً 9 فیصد شام میں اور 10 لاکھ سے زائد مغربی ممالک میں رہایش پذیر ہیں۔2011ء تک ایک اندازے کے مطابق شام میں 3 لاکھ کے قریب بے ریاست کرد ہیں اور شام میں فوجی آمر بشار الاسد کی حکومت کی بے حسی کی وجہ سے یہ متاثرہ افراد دیگر ملکوں اور علاقوں میں نقل مکانی کر رہے ہیں جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
دنیا کی تمام جدید اور طاقتور ریاستوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا سے غلامی کا خاتمہ کر دیا گیاہے حالانکہ یہ محض ایک مفروضہ اورغلط فہمی ہے جس سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں طاقتور قوموں کی طرف سے کمزور قوموں کے ساتھ غلامانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون میں اس کی گنجایش موجود ہے۔ جب کوئی طاقتور ریاست اپنے شہریوں کو حقوق شہریت سے محروم کر دیتی ہے تو خود بخود وہ تمام دیگر قانونی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں اور جب طاقتور ریاستیں دیگر کمزور ریاستوں پر دھونس ڈالتی ہے کہ وہ ان بے ریاست شہریوں کو پناہ گزیں کے طور پر ملک میں نہ گھسنے دیں تو ان لوگوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح امریکا اور دیگر طاقتوں نے جن لوگوں کو جنگی مجرم قرار دے کر گوانتاناموبے جیل، برطانیہ کی بل مارش جیل، عراق کی ابو غارب جیل اور افغانستان کی بٹگرام جیل میں ڈال دیا ہے، ان کی حیثیت بھی غلاموں سے بدتر ہے کیونکہ ان پر کسی ملک کے وہ قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے جو وہاں کے عام قیدیوں کو کچھ انسانی حقوق فراہم کرتے ہیں۔
روایتی اور مذہبی ریاستوں میں آزادی اور مساوات کے نام پر انسانیت پر اس طرح کے ظلم و ستم کبھی نہیں کیے گئے، جو آج کی جدید ریاستیں کر رہی ہیں۔ شریعت ایک انسان کو جو حقوق عطا کرتی ہے وہ کسی آقا، مالک، حکمران اور ریاست کو چھیننے کا اختیار نہیں ہوتا۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کو کسی بھی اسلامی معاشرے اور علاقے میں وہی حقوق حاصل ہوتے تھے جو اسے اپنے پیدایشی علاقے میں حاصل ہوتے تھے۔ روایتی حکمران اور ریاستیں جب کسی مجرم کو علاقہ بدر کر دیتی تھیں تووہ اس کے لیے ایک جزوی سزا ہوتی تھی اور اس سنگین جرم کی سزا کی وجہ سے صرف اپنے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، باقی دنیا اس کے لیے کھلی ہوتی تھی اور وہ کہیں بھی انسانوں کی طرح زندگی بسر کر سکتا تھا۔ مثلاًجب یہودیوں کے لیے پورا یورپ مقتل بنا ہوا تھا اوروہاں ان کا جینا حرام کر دیا گیا تھا تو انہیں اسلام کی آغوش میں پناہ ملی۔ جب اسپین سے ڈھائی لاکھ یہودیوں نے ہجرت کی تو انہیں سلطنت عثمانیہ نے سلونیکا میں آبادکاری کی جازت دی۔ اس لیے اسلامی خلافت کا وہ دور یہودیوں کے لیے سنہری دور کہلاتا ہے لیکن آج کے دور میں دنیا میں 20 سے زیادہ اقوام در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں اور انہیں کوئی ریاست اپنا شہری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی روسے جن حقوق کو انسانی حقوق قرار دیا گیا ہے، ان کا مطالبہ صرف ریاست ہی سے کیا جا سکتا ہے اور جو شخص یا قوم ریاست کی شہریت سے محروم ہو جائے اسے کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہیں ہوتے اور اس کی حیثیت غلام سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔