اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)پاکستان میں ہر سال خواتین میں بریسٹ کینسرکے90ہزارنئے تشخیص شدہ کیسز میں سے40ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جو ایشیا میں سب سے زیادہ ہے ، پہلے اسٹیج پرعلاج ممکن ہے جبکہ چوتھے اور آخری اسٹیج پر جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے، لوگو خوف اور لا علمی کی وجہ سے علاج پر توجہ نہیں دیتے۔ کامسیٹس کے زیر اہتمام ویبنار کا موضوع ’’چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی،امید دیجیے،زندگیاں بچائیے‘‘ تھا، جس میں صحت کے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی۔ ویبنار میںماہرین اوردیگر شرکا نے آن لائن شرکت کی۔ کامسیٹس کی مشیر فوزیہ نسرین نے پاکستانی معاشرے میں علم کی کمی،نا مناسب سہولیات،خاندانی سطح پر مدد میں کمی اور کینسر سے متعلق خوف پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدامات اُٹھانے پر زور دیا۔ ڈبلیو ایچ او پاکستان کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ثمینہ نعیم نے موذی مرض سے متعلق معاشرے میں پائے جانیوالے دقیا نوسی تصورات اور توجیہات سے جان چھڑانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ڈاکٹر فوزیہ چیمہ نے ڈاکٹر کے نقطہ نظر سے چھاتی کے سرطان سے لڑنے کے اپنے ذاتی تجربہ کو سنایا۔ پمزاسپتال اسلام آباد کے شعبہ ریڈیالوجی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فرحین رضا نے اسکریننگ کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ معاشرتی امراض اور خواتین کی بیماریوں سے منسلک بدنامی کے عنصر پر قابو پانے کیلیے مباحثوں سمیت، کمیونٹی پر مبنی صحت کے بارے میں تعلیم کی ضرورت ہے۔ پرنسپل میڈیکل آفیسر کامسیٹس ہیڈ کوارٹر ڈاکٹر عظمیٰ فرید نے کہا کہ مردوں میں بھی اس مرض کیخلاف بیداری مہم کی ضرورت ہے۔ ویبنار کے اختتام پر تمام شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چھاتی کے سرطان کی وجوہات میں خواتین کا بچوں کو دودھ نہ پلانا، غیر متوازن خوراک، ورزش سے گریز، تاخیر سے شادیاں اور غیر صحت مندانہ طرز زندگی بھی شامل ہے۔ خواتین کو ہر سال بریسٹ معائنہ کرانا چاہیے۔