لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) بین الاقوامی ہفت روزہ میگزین دی اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں جمہوریت اور ریاستی اداروں کی تباہی کو بے نقاب کردیا ہے۔جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حال ہی میں بھارتی حکومت کے وزراء نے ایک متنازع بھارتی صحافی ارنب گوسوامی کی ضمانت منظور کرائی۔ بین الاقوامی معتبر جریدے کے مطابق گوسوامی کیس ہر گز آزادی رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔ جریدے کا کہنا ہے کہ دْنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ایک آمرانہ اور ظالمانہ مستقبل کی طرف گامزن ہے، جہاں صرف طاقت اور طاقتور کا بول بالا ہے۔ یاد رہے کہ گوسوامی ایک متنازع صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ان کا شکار اکثر بھارت کی متنازع حکومتی پالیسی کے نقاد ہوتے ہیں جن کو وہ غدار اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔من پسند لوگوں کی حکومتی پشت پناہی، مودی کے بھارت کا وتیرہ بن چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں مودی نے کشمیر پر ظالمانہ اور غاصبانہ براہ راست حکمرانی مسلط کی اور ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں لیا۔ اس حوالے سے مقدمات کی سماعت بھارت کی عدالتیں بھول چکی ہیں۔ جریدے نے انکشاف کیا کہ اپنا متنازع قانون جس کے تحت سیاسی جماعتوں کو لامحدود عطیات ملنے کی اجازت دی گئی تھی،اسے منظور کرانے کے لیے 2017ء میں مودی نے راجیہ سبھا کے اختیارات کم کرائے۔ علاوہ ازیں اعلیٰ عدلیہ ابھی تک کشمیر کو نظر انداز کیے ہوئے ہے۔ متنازعہ سی اے اے کے خلاف 140سے زاید اپیلوں کی سماعت مسلسل التوا کا شکار ہے۔ ماضی میں بھارتی عدلیہ اور اداروں نے آزادانہ اور شفاف رویہ اختیار کیا مگر موجودہ حکومت کے اقتدار میں تمام ادارے بشمول عدلیہ بھارت کو یک جماعتی ریاست بنانے میں آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت قوم پرستی کے نشے میں آمریت کی طرف رواں دواں ہے۔ دہلی پولیس نے حکومتی پشت پناہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف مظاہروں کے دوران مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے جس پر عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ایک اور متنازع قانون یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے ایکٹ) میں ترمیم کر کے بہت سے مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں بھی نشانہ بنایا۔ معلومات کے حصول کے حق سے متعلق قوانین میں ترامیم سے بھی مودی کے غاصبانہ عزائم کا ایک اور ثبوت ہے۔بین الاقوامی ہفت روزے کے مطابق مودی نے اپنے اقتدار کے دوران قومی اداروں کو سیاسی رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی۔ بی جے پی اور ہندوتوا کے پیروکاروں کو اعلیٰ حکومتی عہدوں سے نوازا جا رہا ہے۔ مودی کے دورِ اقتدار میں بھارتی فوج کو بھی سیاست میں گھسیٹا گیا۔ اس کا ثبوت جنرل بپن راوت کی سی ڈی ایس کے عہدے پر ترقی اور اْن کا سیاسی معاملات میں مداخلت بھی ہے۔ کالم کے مطابق مودی نے الیکشن سے پہلے بھی فوج کا سہارا لیا اور لداخ میں چین کے ساتھ تنازع کا بھرپور پراپیگنڈا کیا۔ مودی نے بھارتی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کو متنازع کردیا اور الیکشن کمیشن کے فرض شناس افسران اور اْن کے خاندان کو نشانہ بنایا۔ اکانومسٹ کے مطابق مودی کے دور میں آزادی اظہار پر بھی غاصبانہ قانون بنائے گئے۔ بھارتی سیاسی منظر نامے میں کانگریس کی سیاسی تنزلی نے بھی مودی کی بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔