سرکاری اداروں کی نجکاری سے بیروزگاری اور بد امنی میں اضافہ ہوا

158

 

کراچی (رپورٹ ـ:قاضی جاوید)این ایل ایف کے کر اچی کے صدر مزدور ر رہنما خالدخان نے کہا کہ نجکا ری نے صرف بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت کے سالانہ منصوبے 21-2020 کے مطابق پاکستان میں دنیا کی نویں بڑی لیبر فورس پاکستان میں ہے جو ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔ملازمت پیشہ افراد کی تعداد21-2020 میں 6 کروڑ 92 لاکھ ہوجائے گی جو 20-2019 میں 6 کروڑ 21 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔لیبر فورس سروے 18-2017 کے مطابق آئندہ مالی سال (21-2020) کے لیے بے روزگاری کی شرح 9.56 فیصد بتائی گئی ہے۔ڈگری رکھنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریبا 3 گنا زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فراہم کی جانے والی تعلیم اور نئے تعلیم یافتہ افراد کو جزب کرنے کی معیشت کی ضرورت کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔ اسی طرح لیبر فورس سروے 18-2017 کے مطابق بے روزگاری میں مردوں کے مقابلے خواتین میں کی شرح زیادہ ہے جو باالترتیب 8.27 فیصد اور 5.07 فیصد ہے۔اوسطاً بیروزگاری کی شرح کے مقابلے میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ
ہے۔انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نجکاری سے لاکھوں نہیں ایک کروڑ سے زاید مزدور بے روزگار ہو ئے ہیں بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح 11.56 فیصد، 20-24 سال کی عمر والے افراد میں پائی جاتی ہے۔سالانہ منصوبے میں روزگار کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ معاشرے کے ناقص طبقات میں ترقی کے ثمرات کو تقسیم کرنے کے لیے نتیجہ خیز معاوضے اور مہذب ملازمتوں کی فراہمی بنیادی طریقہ کار ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، نوجوان نسل کو روزگار کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور نوجوان نسل کی صلاحیتوں کی ترقی اور ان کو بروئے کار لانا بہت ضروری ہے۔پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زائد ہے۔آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 2030 تک اس کی آبادی 28 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔فی الحال آبادی میں 63 فیصد افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ تحریک محنت کے سابق صدر اور مزدور رہنمامحمد اسلام نے کہا ہے نجکاری میں بدعنوان نوکر شاہی اور اداروں کی یونین نے مل محنت کشوں کو بے روزگار کیا ہے اور پاکستان اسٹیل جیسے بڑے ادارے سمیت ملک بھر کے اداروں کو تباہی سے دو چار کیا ہے اور یہ سلسلہ آ ج بھی جاری ہے۔ کو ویڈ 19- کی وجہ ملک بھر میں 21-2020 ء کے مالی سال کے دوران ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ مالی سال 20-2019 کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔انھوں کے کہا کہ روزگارریاست کے ذمے داری لیکن اب حکومت یہ کہتی نظر آتی ہے روزگار حکومت کی نہیں نجی شعبے کی ذمے دار ہے اس صورتحا نے سرکاری شعبے کو تباہ کیا ہے ۔ جس کی وجہ سے ملک میں ایک کروڑ وں مزدور بے روزگار ہوئے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ملک میں پاکستان اسٹیل ،پاکستان مشین ٹول فیکٹری ،ایچ ایم سی جیسے ادارے جس میں ہزاروں افراد کو بے روزگار کیا گیا ہے اسی طر ح نجکاری کیے جانے واالے درجنو ں اداروں میںجہا ں سے سینکٹروں افراد اپنے علاقوں میں روزگار حاصل کر رہے تھے کا روزگا ربھی بند کر دیا گیا اور اب حکومت انکم سپورٹ اوراسی جیسے پروگراموں سے غربت میں میں کمی کااعلان کر تی پھر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ غربت میں خاتمہ کے لیے صنعت تجارت کا فروغ ضروری ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری سے سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ۔بے روزگاری نے سماجی ڈھانچے کو تباہ وبربادکر دیا ہے ۔ ہر گھر میں نوجوان لڑکیوں کے رشتے میں سب سے بڑی رکاوٹ نوجوانوں لڑکوں کی بے روزگاری ہے اور اس سے پورا معاشرہ تباہی سے دو چار ہے اور اس جانب کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔نوجوانوں کے روزگار ملنے سے بد امنی اور خواتین کی بے حرمتی کے بڑھتے جرائم میں بہت حد تک کمی کا امکان ہے ۔روزگار اور امن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔قیام امن سے ملک میں سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان ہے اور اس سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو گا۔ ؎این ایل ایف کے سینئر نائب صدرظفر خان نے کہا ہے ایک جانب روزگار میں کمی ہو رہی ہے اور دوسری جانب ملک میں نجکاری کے نام پرمزدوروں ک بے روزگار کای جارہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سالانہ منصوبے میں ہنر کی ترقی پر فوکس کیا گیا ہے جو نوجوانوں کے لیے نتیجہ خیز روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔ لیکن ایک بہت بڑی تعداد کو بے روزگار کیا جارہا ہے۔اس وبا کے منفی معاشی اثرات مختلف طریقوں سے سامنے آئے جس میں گھریلو طلب میں کمی، کاروباری سرگرمیوں میں کمی، درآمد اور برآمد میں کمی اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے پیداوار میں کمی شامل ہیں۔اس کا ایک سب سے اہم اثر روزگار میں کمی کی صورت میں سامنے آیا، افرادی قوت کو اس وقت پریشانیوں کا سامنا ہے، وبائی بیماری نے صحت کے بحران سے لے کر معاشی اور مزدور منڈی کے بحرانوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔حکومتی دعوؤں کے مطابق سالانہ منصوبہ اقتصادی ترقی اور اصلاحات کے حکومتی منصوبوں کے وسیع تر فریم ورک کے تحت روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرنے پر مرکوز ہے اور ورکرز اور ان کی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے کورونا وائرس کے قابل عمل اقدامات کی تجویز بھی موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو بے روزگاری اور معاشی بحران کا سامنا ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان میں سرمایہ بھی زیادہ نہیں بھیج رہے ہیں۔اور دوسری جانب ملک میں بے نجکاری کے نام پر بے روزگار میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ ماہر اقتصادیات فرخ سلیم نے جسار ت سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ سال 2018-20کے دوران متحدہ عرب امارات کے معاشی بحران کی وجہ سے وہاں کے مزدور پیشہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں واپسی ہوئی۔ چنانچہ ماہوار وطن پیسہ بھیجنے کے بجائے۔ انہوں نے اپنے مجموعی سرمائے کو پاکستان منتقل کیا۔ فرخ سلیم کے بقول یہ خوشخبری نہیں بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ مستقبل کے لیے ان لوگوں کی تعداد کم ہو گئی ہے جو بیرون ملک کما کر نہ صرف اپنے گھر والوں کو پیسہ بھیجتے تھے بلکہ ملکی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے اور اس کے ساتھ ملک میں بھی بے رزگاری سے حالات تباہ ہو جائیں گے ۔ وہ پاکستانی جو بیرون ملک محنت مزدوری کر کے وطن میں موجود اپنے خاندانوں کا پیٹ پال رہے ہیں، ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ کسی بھی سرکاری ادارے، وزارت یا غیر سرکاری تنظیم کے پاس ایسے اعداد و شمار موجود نہیں۔ دوسرے ملکوں میں موجود ان پاکستانیوں کے ذرائع آمدن، ماہانہ تنخواہ یا پھر چھوٹے درجے کے ذاتی کاروبار ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد اگر کروڑوں میں نہیں تو لاکھوں میں ضرور ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ایسے لاکھوں خاندان ہیں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مالی انحصار، اپنے خاندان کے بیرون ملک مقیم افراد پر ہے۔ امریکا میں حالیہ مالی بحران کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح آٹھ اعشاریہ ایک فیصد کی ریکارڈ بلندی تک پہنچ گئی ہے اور تقریباً ایک کروڑ پچیس لاکھ لوگ نوکریوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران دنیا کے سب سے بڑے بینکوں سمیت ایک سو کے قریب امریکی کمپنیاں دیوالیہ ہوئیں۔ کئی بڑے مالیاتی اداروں کو دیوالیے سے بچانے کے لیے حکومت نے اربوں ڈالر کے امدادی پیکج دیے۔ وال اسٹریٹ کی اسٹاک ایکسچینج نے گراوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کیئے۔اگر یورپ پر نظر ڈالی جائے تو وہ ممالک جہاں یورو کرنسی استعمال ہوتی ہے، ان میں بے روزگاری کی شرح آٹھ اعشاریہ دو فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یورپین بینک نے غریب یورپی ممالک میں معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ایک بار پھر اپنی شرح سود کم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔