حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے۔ حکومت نے ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر ڈالا ہے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن نے طبل ِ جنگ بجاتے ہوئے اعلان کیا کہ کارکن ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلسے میں نہ آئے تو جیلیں بھر دیں گے۔ بلاول زرداری کو ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے حوالے سے اچانک کوفہ یاد آگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ کوفے کی سیاست سے مدینے کی ریاست نہیں بن سکتی۔ اس سلسلے میں میاں شہباز شریف نے اپنا راگ الاپا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ تمام مسائل صرف قومی ڈائیلاگ ہی سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پی ڈی ایم کا ایک رہنما اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کر رہا ہے اور دوسرا رہنما میدانِ جنگ میں کھڑا ہو کر مکالمے کی بات کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ جنگ لڑتے ہیں وہ مکالمہ نہیں کرتے اور جو مکالمہ کرتے ہیں وہ جنگ کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کی قیادت کو مشورہ دینے کی ضرورت ہے کہ پہلے آپ یہ تو طے کر لیں کہ آپ حکومت سے جنگ چاہتے ہیں یا مکالمہ کرنا چاہتے ہیں؟ اس سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو بھی حکومت اور پی ڈی ایم کی محاذ آرائی بے معنی ہے۔ اس لیے کہ اس کا قوم کو درپیش کسی مسئلے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ قوم امریکا اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات چاہتی ہے اور اس مسئلے کا حل نہ حکومت کے پاس ہے نہ پی ڈی ایم کے پاس ہے۔ قوم مہنگائی کم ہوتے دیکھنا چاہتی ہے مگر پیپلزپارٹی‘ نواز شریف اور پی ٹی آئی تینوں کی حکومت مہنگائی کی علامت ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت اور پی ڈی ایم کی لڑائی ذاتی‘ شخصی اور جماعتی مفادات کے لیے ہے‘ اس کا کسی بھی قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔