سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نارملائزیشن کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور دونوں طرف کی قیادت کیمروں کی روشنیوں کی چکا چوند میں کسی مشترکہ کاغذ پر دستخط کرتی نظر آتی ہے تو اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہو گی۔ سعودی عرب نے فلسطینیوں کی حمایت تو کی مگر اس توازن کے ساتھ کہ یہ حمایت اسرائیل دشمنی کی حدود میں داخل نہ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سے بے تاثر انداز میں الگ تھلک رہا اور اس پر زیادہ ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتا عرب دنیا میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ برسوں بعد اب عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جو برکھا برس رہی ہے اسی پہلے قطرے کا تسلسل ہے۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے تحت مصر وہ پہلا عرب ملک تھا جس نے فلسطینیوں کی مزاحمت کی حمایت ہاتھ اُٹھا لیا اور اسرائیل کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس سے معمول کے تعلقات کا راستہ اختیار کیا۔ فلسطینی اور عرب رائے عامہ اس سمجھوتے کی مخالفت کرتے رہے مگر مصر کی حکومت نے اس احتجاج کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دی۔ اب زمانہ خاصا بدل گیا ہے اور عرب رائے عامہ میں اسرائیل کے حوالے سے پہلی جیسی حساسیت باقی نہیں رہی۔ اسامہ بن لادن نے اپنی تحریک کے لیے فلسطینی عوام کی حالت زار سے طاقت کشید کرنے کی حکمت عملی اختیار کی مگر انہوں نے جو راستہ اختیار کیا اس کی بنا پر ان کی طاقت کو کچل ڈالنا زیادہ آسان رہا۔
امریکی صدر کلنٹن کو دنیا کے تین بڑے تنازعات فلسطین، شمالی آئر لینڈ اور کشمیر حل کرانے کا شوق چرایا۔ انہوں نے فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ کرایا اور اپنے تئیں مسئلہ فلسطین حل کر دیا۔ اس سے فلسطینیوں کو لوکل اتھارٹی جیسی حیثیت تو حاصل ہوئی مگر اقتدار اعلیٰ کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ اسی طرح شمالی آئرلینڈ میں آئرش ری پبلکن آرمی اور برطانوی حکومت کے درمیان بھی وہ ڈھیلا ڈھالا معاہدہ کرانے میں کامیاب رہے۔ کشمیر میں پاک بھارت خفیہ ڈپلومیسی کو فروغ دیا گیا اور اس کا حتمی نتیجہ جنوبی ایشیا میں ایک اور کیمپ ڈیوڈ طرز کا سمجھوتا تھا۔ جس میں پاکستان کشمیریوں کو کچھ حاصل ہونے والی کچھ نمائشی مراعات کے بعد خود کو اس ساری صورت حال اور کشمیری عوام سے اسی طرح لاتعلق کرتا کہ جس طرح مصر نے فلسطینی عوام سے دوری اختیار کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو مسلمان دنیا سے سند قبولیت دلوانے کے لیے طاقت، دھونس اور دھمکی کا راستہ اپنایا۔ جس کی ابتدا امریکا نے خود کی اور اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا۔ اس کے بعد امریکا نے مسلمان ملکوں پر اسرائیل سے تعلقات کے قیام کے لیے دبائو ڈالنا شروع کیا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین میں یہ کوشش کامیاب ہوئی۔ سوڈان اس قطار میں کھڑا نظر آرہا ہے اور سعودی عرب اس سمت کی جانب رخ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
سعودی عرب میں گزشتہ کچھ مدت سے طاقت کی اندرونی کشمکش کی سی کیفیت بھی دکھائی دیتی رہی عین ممکن ہے اس کا تعلق بھی اسرائیل کے حوالے سے ہو۔ اب اچانک
اسرائیلی اخبارات نے یہ خبر بریک کی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے سعودی عرب کا خفیہ دورہ کرے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل اور اسرائیلی اخبار ہیرٹز سمیت کئی عالمی ذرائع ابلاغ نے نیتن یاہو کے دورہ ٔ سعودی عرب کی تصدیق کی ہے۔ ہیرٹز کے مطابق نیتن یاہو، اسرائیلی وزیر خارجہ اور موساد کے چیف کے ساتھ نجی طیارے میں سعودی شہر نیوم پہنچے جہاں انہوں نے پرنس محمد بن سلمان سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ملاقات کی۔ اخبارات نے اسرائیلی جہاز کے ٹیک آف، سعودی عرب میں قیام اور اسرائیل واپسی کا وقت بھی بیان کیا ہے۔ فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل سے اُڑ کر ایک جہاز سعودی عرب آیا اور پھر واپسی کی اُڑان بھرکر اسرائیل پہنچا۔ ان واضح ثبوتوں کی روشنی میں اس خفیہ دورے کی تردید کرنا بے معنی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے نیمے دروں نیمے بروں کے انداز میں کہا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات کی نارملائزیشن پر یقین رکھتا ہے مگر اس کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل امن معاہدہ ضروری ہے۔ انہوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کسی معاہدے کی تردید کی ہے۔ تردید وتائید کا قصہ اپنی جگہ مگر خفیہ ملاقات کی خبروں کی دھند میں اسرائیل نے اپنے ملک کا دورہ کرنے والے سعودی شہریوں کو خصوصی سلوک کا مستحق جانتے ہوئے قرنطینہ کی شرط سے مستنثیٰ قرار دیا۔ اسرائیلی اخبار ہیرٹز نے تو اسی دھند ہی میں ایک اور مضمون میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ اس ملاقات کے لیے دور دراز اور کم اہمیت کے حامل سعودی شہر نیوم کا انتخاب کیوں کیا؟۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا آغاز پاکستان پر بھی کئی حوالوں سے اپنے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ چند دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر امریکا اور ’’ایک اور‘‘ ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ ایک اور ملک کا اشارہ سعودی عرب کی جانب ہی سمجھا گیا تھا۔ ’’ایک اور ملک‘‘ کی جو بات ملفوف انداز میں عمران خان نے کی تھی اس ملاقات کے بعد وہ راز اب طشت ازبام ہو چکا ہے۔ پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اس کے وجود، بقا اور دفاع کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد دوست اور برادر ملک ایک اور فرمائش کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوجائیں گے اور وہ فرمائش ہوگی کشمیر پر بھارت کے قبضے کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا۔ فرمائشوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ہل من مزید کے مطالبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ دلچسپ خبر یہ ہے کہ ابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان اور اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو سربراہان کو مشترکہ طور امن کا نوبل انعام دینے کی تجویز زیرغور ہے کچھ عجب نہیں کہ اس بار نوبیل پرائز کا اسی طرح دوحصوں میں تقسیم ہو۔ یہ وہی نوبیل انعام ہے جس کو ڈیڑھ عشرہ قبل اسی طرح دو حصوں میں بانٹ کر جنرل پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کو پیش کیا جانا تھا مگر ’’قسمت کی دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند، دوچار ہاتھ جب لب ِبام رہ گیا‘‘ کے مصداق نوبیل پرائز دونوں شخصیات کو ملتے ملتے رہ گیا تھا کیونکہ حالات کی بساط اچانک اُلٹ کر رہ گئی تھی۔