ہر طرف اُمت مسلمہ ہی کیوں نشانہ ہے۔ اسرائیل میں 72 برس گزر چکے کشمیر میں 73 برس گزر چکے۔ بھارت میں اس سے پہلے سے یہ سلسلہ چل رہا تھا اور پاکستان بننے کے بعد شدت اور جدت آگئی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر جو مسلمان وسائل رکھتے تھے یا مواقع، وہ یورپ اور امریکا چل دیے، کیوں کہ وہاں مسلمانوں سے کھلی نفرت نہیں تھی۔ لیکن اب یہ نفرت اور اس کا اظہار ساری دنیا میں کھل کر سامنے آرہا ہے۔ اسرائیلی کبھی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے تو مغرب سے بھی اس کی مذمت میں آوازیں آجاتی تھیں۔ اسپتالوں پر حملہ تو بڑی بڑی جنگوں میں غلط قرار دیا جاتا تھا بلکہ اسے جنگی جرم گردانا جاتا تھا لیکن اب حال یہ ہے کہ گزشتہ جمعے کے روز اسرائیلی فوج نے ایک اسپتال پر دھاوا بول دیا، 10 فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔ گھروں میں توڑ پھوڑ تو معمول ہے۔ اسی دن کے اخبار میں ایک اور خبر ملے گی کہ فرانس میں پاکستانی امام مسجد گرفتار، ملک بدر کرنے کا حکم۔ انہیں 18 ماہ جیل میں رکھا جائے گا۔ اپیل بھی نہیں کرسکیں گے۔ یہ انصاف کے دعویداروں اور چیمپئنوں کا فیصلہ ہے۔ ہفتے ہی کے جسارت کی رپورٹ ہے کہ یورپ میں نفرت اور نسل پرستی کا اظہار معمول بن گیا ہے۔ اب حکومتی حلقوں اور سیاسی جماعتوں میں شدت پسندانہ نظریات کا پرچار معیوب بات نہیں ہے۔ اس سب کا سبب یورپ نے اخلاقیات کی پستی قرار دیا بلکہ یورپی پارلیمنٹ نے اس کی تصدیق یا اعتراف کیا ہے کہ ایسا ہورہا ہے۔ مجموعی طور پر امریکا اور یورپ میں اس وقت انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور دوسری طرف میڈیا سے مسلمانوں کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس کے نتیجے میں نفرت اور نسل پرستی کا اظہار مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے۔
اس ساری صورت حال کے مختلف اسباب قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ پڑھتے نہیں، انگریزی نہیں آتی وغیرہ۔ دوسرا خیال ہے کہ مسلمانوں کے پاس جرأت مند قیادت نہیں ہے۔ ایک اور خیال یہ ہے کہ مسلمان خود اخلاقی پستی میں گرے ہوئے ہیں۔ یہ ساری باتیں اس صورت حال کا ایک سبب ہوسکتی ہیں یا اس میں شدت پیدا کرنے والا عنصر تو ہوسکتی ہیں لیکن اس تباہی کا بنیادی سبب نہیں۔ پہلی چیز کو لے لیں مسلمان جو کلمہ لے کر اٹھے تھے اس کی بنیاد پر ان کے گرد لوگوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ہجرت ہوئی اور فوراً ہی جنگ بدر کا معرکہ آگیا۔ مسلمانوں نے اس وقت کی جدید تعلیم، جدید فوجی قوت اور عددی طور پر برتر قوت کو اللہ کے حکم سے شکست دی۔ اگر تعلیم مسئلہ ہوتی تو مسلمان کفار کے قیدیوں کو چھوڑنے کی یہ شرط نہ رکھتے کہ دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائو تو تمہیں چھوڑ دیں گے۔ یہ اسلام کی علم دوستی تھی لیکن مسلمان جدید علم سے ناواقف تھے۔ صرف ایمان تھا۔ یہ بات آج کے ایٹمی دور میں کسی کو ہضم ہی نہیں ہوتی تھی لیکن پاکستان کے پڑوس میں افغانوں نے گزشتہ چالیس برس میں دنیا کی دو سپر پاورز کو خاک میں ملادیا۔ ان افغانوں کے پاس بھی صرف ایمان کی دولت تھی۔ سوویت یونین کے بارے میں تو کہا جاسکتا تھا کہ امریکا اور مغرب بھی اس کے خلاف تھے لیکن اب کیا ہوا امریکا، مغرب، مشرق، پاکستان ہر طرف سے ان افغان مجاہدین کے لیے رکاوٹیں اور اختلاف ہی تھا جو امریکا کو اپنے ملک سے نکالنا چاہتے
تھے۔ ان کے پاس تو اپاچی نہیں تھے۔ ڈیزی کٹر بم بھی نہیں تھے۔ جدید ٹیکنالوجی تھی نہ جدید تعلیم صرف ایمان کی دولت تھی، اب بھی نہ سمجھیں تو انتظار کریں۔ مسلمانوں نے پہلے ایمان حاصل کیا، عمل کیا، دنیا کو فتح کیا اور ساتھ علم اور ایجادات بھی کیں۔ دوسری بات جرأت مند اور حکمت والی قیادت ہے۔ یہ بڑی حد تک درست ہے لیکن یہ جرأت اور حکمت دین سے جڑنے ہی سے ملتی ہے۔ قرآن سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا ہر مسئلے کا بروقت حل اسی سے ملے گا۔ جرأت مند اور مدبر قیادت بھی قرآن کے علم اور اس پر عمل سے ملتی ہے۔ اور یہ جو بات ہے کہ مسلمان خود ہی اخلاقی پستی میں گرے ہوئے ہیں یہ مسلمانوں کے خلاف مغرب اور ہنود و یہود کا پروپیگنڈا ہے اور مسلمان اس کے اثر میں آکر یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس کا موازنہ کرنا شروع کریں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں۔ چند چھوٹی چھوٹی مثالیں!! امریکا میں جہاں ستر فی صد سے زیادہ علاقے کیمروں کی نگرانی میں ہیں وہاں چوریاں، گاڑی چھیننے کی وارداتیں عام ہیں، سڑک پر چلتے لوگوں کو لوٹنا، دن کے وقت بعض خاص علاقوں میں جانا موت کو یا ڈکیتی کو دعوت دینا ہے۔ میٹرو ٹرینوں میں، اسٹیشن پر اترتے اترتے چند اوباش نوجوان ہر ایک کی جیب خالی کردیتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ آپ کسی انجان کو اپنی گاڑی تو دور کی بات ہے موبائل نہیں دے سکتے۔ اگر پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو یہاں جرائم کی شرح امریکا و یورپ کے مقابلے میں کم ہے۔ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناتے اتنے بھی نہیں ہونے چاہئیں، لیکن اگر آپ کسی بازار میں رکیں پارکنگ نہیں تو کسی وردی کسی کارڈ کے بغیر ایک نوجوان آپ سے گاڑی کی چابی لیتا ہے۔ پارکنگ کرنا ہے آپ گھنٹے دو گھنٹے بعد آئیں آپ کو گاڑی سالم ملتی ہے۔ اس میں ہزاروں روپے رکھے ہوں یا لاکھوں کی چیز۔ گاڑی خود لاکھوں کی ہوتی ہے۔ یہ مشاہدہ نہیں تجربہ ہے۔ روز ہوتا ہے اخلاقی پستی کا شکار ملک میں اور اخلاقی پستی کا شکار مسلمان ایسا نہیں کرسکتے۔ کسی رکشے میں نوٹوں کا بنڈل چھوڑ دیں۔ خاتون پرس بھول جائیں، 90 فی صد ڈرائیور گھر لا کر دے کر جاتے ہیں۔ ہاں چور بھی ہیں دھوکے باز بھی ہیں اور میڈیا کے ذریعے اور حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشرے میں چوری کا رجحان بڑھ رہا بھی ہے۔ جب چار سو ارب کا گھپلا کرکے چینی مافیا باعزت رہے اس کے خلاف کارروائی ہی نہ ہو تو نیچے والے بھی کمانے کا سوچتے ہیں۔ پھر اپنی قیادت کا انتخاب بھی ایسا کرتے ہیں کہ اس سے کوئی ذاتی فائدہ ہو۔ پھر ایسے ہی حکمران آئیں گے جو پاناما میں رنگے ہوں گے یا چینی مافیا کے گھیرے میں ہوں گے۔ اب تو سب نے ثابت کیا ہے کہ ان کا مسئلہ کشمیر، فلسطین، پاکستانی عوام وغیرہ نہیں۔ مغرب کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔ لیکن وہ وہاں بھی رسوا ہوتے ہیں اور اپنے ملک میں تو کوئی عزت نہیں۔ اس سارے مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ مدینے والی ریاست کے نظام کی طرف لوٹ آئیں۔ سود سے جان چھڑائیں۔ اللہ اور رسولؐ سے جنگ بند کریں۔ عوام قیادت کے انتخاب میں بھی خدا خوفی اور تقویٰ کو معیار بنالیں۔ پھر دیکھیں مسلمان کیسے ترقی کرتے ہیں اور کیسے دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے تو ہمارے نبی نے کہا ہے کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو تمہارے لیے حجت سے یا تمہارے خلاف حجت بنے گی۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو عروج دیتا ہے اور اس کو چھوڑنے والوں کو ذلیل و خوار کردیتا ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہو تارک قرآں ہو کر