محمد رسول اللہؐ

242

امام الاولین ولآخرین، سید الانبیاء و المرسلین جناب محمدؐ کو بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لیے ایک ایسے دور میں مبعوث فرمایا گیا جب کہ انسانیت کی قدریں بدل چکی تھیں، لوگوں میں اچھائی اور برائی کی تمیز مٹتی جارہی تھی۔ قوم کائنات کی سب سے اٹل حقیقت یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے یکسر بیگانہ و لاتعلق ہوچکی تھی، دنیا میں مالک ارض و سماوات کے سب سے پہلے قائم ہونے والے گھر ’’خانہ خدا‘‘ میں تین سو ساٹھ خود ساختہ خدائوں کی پرستش ہورہی تھی۔ فحاشی و بے حیائی نے ثقافت اور ادب کا مقام حاصل کرلیا تھا۔ خانہ ٔ خدا کا ننگا طواف کیا جاتا، جو شخص برسرِ محفل فحش قصے اور واقعات جس قدر بے غیرتی سے نمک مرچ لگا کر بیان کرتا وہ اسی قدر ’’قادر الکلام‘‘ سمجھا جاتا، لوگ جہالت اور گمراہی کی آخری حدود کو پار کرکے انسان تو کُجا جانور بھی نہ رہے تھے کہ اپنی ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ملی فریضہ ٹھیرا تھا۔ مقتدر طبقہ ہی کمزوروں کا قانون ساز تھا۔ اخلاقی اقدار، ضمیر کی آزادی، عدل و انصاف، اخوت و مساوات وغیرہ نہ صرف یہ کہ مفقود تھے بلکہ اُن کو حاصل کرنے کا کوئی شعور بھی بیدار نہ تھا، انسان مستقل ایک فریب کا شکار تھا،تھی ملک میں رائج کھوکھلے نظام کی پشت پر جابر حکام اور اُن کے گماشتے مسلط تھے قومی وسائل اور قومی دولت اس چھوٹے سے گروہ کے لیے مخصوص تھی جو فسق و فجور اور لہو ولعب میں زندگی گزارتے تھے، حق و ناحق کو وہ لوگ نہ جانتے تھے اور نہ جاننے کے آرزو مند تھے، زندگی گزارنے کے قانون تک سے بے بہرہ تھے گویا جنگل کا قانون تھا ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کے مصداق صرف تلوار ہی ہر مسئلے کا حل تھی، قومی یکجہتی کے بجائے قبائلی اور گروہی قوت تھی جو انتقام اور انتقام کے چکر میں کٹتی، پھٹتی اور لٹتی جارہی تھی، انسانی خون سے زیادہ اُن کے بازارِ تہذیب میں کوئی شے ارزاں نہ تھی۔
ایسے میں ضرورت تھی ایک ایسی تہذیب کی جو انسان کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر ضمیر کی آزادی بخشے اور حق و انصاف کی راہ دکھائے۔ ضرورت تھی ایسے نظامِ زندگی کی جس میں لوگوں کے معاملاتِ باہمی میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہو، جو مالک و مملوک اور آجر و اجیر کے تعلقات کو نظم و ضبط کا پابند بنا سکے یہاں تک کہ حقدار کو اپنا حق لینے کے لیے کسی کی خوشامد نہ کرنی پڑے، ضرورت تھی ایسے معاشرے کی جس میں عزت و شرافت کا معیار، دولت کے بجائے اخلاقی اقدار اور کردار کی بلندی ہو۔ ایسے دور میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر احسان عظیم کرتے ہوئے سرورِ گرامیؐ کو مبعوث فرمایا کہ دعوت دیجیے اس انسانی انبوہ کو جو جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اپنے آپ کو ایسے عذاب میں مبتلا کررہا ہے جو اس کی دنیا و آخرت کو بگاڑ کر خسارے کی طرف لے جارہے ہیں۔ یہ ایسی بھلائی کی طرف دعوت تھی جو انسان کو انسان کی بندگی سے نجات دلائے، جو انسانی برادری کے قیام اور اس کی تاسیس میں ممد ومعاون ہو، جس کا رنگ، نسل اور نسبتی تفاخر میں کوئی دخل نہ ہو، جس میں انسان کی فضیلت اور عزوشرف کا معیار صرف تقویٰ ہو۔ اس دعوت کا کلمہ و نعرہ ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا اظہار اور رئوسائے عرب کی گدیوں سے بغاوت کا اعلان تھا۔ اس اعلان نے نہ صرف غرب بلکہ تمام عالم میں کھلبلی مچادی، کیوں کہ یہ اعلان محض خانہ خدا میں پنج وقتہ نمازوں یا اللہ ھو کی تسبیحات و وظیفوں تک محدود نہ تھا، اس کلمے کی شدید مخالفت کی وجہ یہی تھی کہ اُس نے سارے نظام ہائے حیات کو بیک جنبش قلم مسترد کردیا تھا، ورنہ آپؐ نے تو برسرِعام فرمایا تھا ’’اے قوم قریش لاالہ الااللہ کا اقرار کرلو‘ فلاح یاب ہوجائو گے اور عرب و عجم کے مالک بنادیے جائو گے‘‘۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اس کلمے پر ایمان لانے کے بعد سر سے پیر تک بندگی میں ڈھلنا پڑے گا، پھر اپنی مرضی کے قانون کے بجائے اللہ تعالیٰ کا قانون چلانا پڑے گا۔
آپؐ کی دشمنی میں پیش پیش مکہ کے باقتدار اور سن رسیدہ لوگ ہی تھے کہ انہیں اپنی چودھراہٹ کے خاتمے کا ڈر تھا، اسی باعث ولید بن مغیرہ نے کہا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ مجھے اور ابومسعود ثقفی کو چھوڑ کر محمدؐ پر قرآن اُتارا جارہا ہے، حالاں کہ ہم دونوں مکہ اور طائف کے بڑے آدمی ہیں، میں قریش کا سردار ہوں اور ابو مسعود ثقیف کا سردار ہے۔ ان لوگوں کا سب سے بڑا اعتراض تو یہی تھا کہ اگر نبی بنانا ہی تھا تو کسی اونچے گھرانے سے بنایا جاتا، اس دُرِ یتیم کو کس طرح پیغامبر بنایا جاسکتا تھا۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی کی بڑائی اونچے گھروں یا خاندانی نسبتوں کے باعث نہیں اس کے کردار کی بنیاد پر ہوتی ہے پھر اللہ تو مختارِ کُل جو چاہتا ہے کرتا ہے اور ٹھیک ٹھیک کرتا ہے۔
نبی کریمؐ مکہ میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے، آپؐ کی نبوت سے قبل کی چالیس سالہ زندگی سے مکہ کا ہر شخص واقف تھا، آپؐ نے نہ کسی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی، نہ کوئی ایسی صحبت ملی کہ جس کی وجہ سے آپ ؐ کو وہ علوم حاصل ہوتے جس کے چشمے یکایک نبوت کے بعد آپؐ کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئے، مشرکوں کے لیے حیران کن تھا آپ شرک سے دور رہے، آپؐ کی چالیس سالہ زندگی کو دیکھ کر قریش کو اس قدر علم تو ضرور ہوچکا تھا کہ آپؐ کی طبیعت جھوٹ، فریب، عیاری، بدعہدی اور اس قبیل کی تمام گراوٹوں سے پاک تھی اسی لیے تو بڑے چھوٹے سبھی آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے۔ نبوت سے پانچ سال قبل جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی تو حجر اسود کے نصب کرنے کے سلسلہ میں ہونے والی جنگ و خونریزی کا خطرہ یوں ٹلا کہ کل صبح سے پہلے جو حرم میں آجائے وہی اس کا فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس دن سب سے پہلے حرم پہنچایا۔ چناں چہ سب نے بڑی خوشی سے آپؐ کا حکم مان کر آپؐ کے فیصلے کو بالاتفاق قبول کرنے کا اعلان کیا اور آپؐ نے نہایت عمدہ طریق پر اشتراکِ عمل کے تحت فیصلے پر عمل کیا۔ اس طرح آپؐ نبی مقرر ہونے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے قریش سے ’’سیادت‘‘ کی گواہی حاصل کرچکے تھے۔ آپؐ کی پوری زندگی بذاتِ خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی پیغمبر یا بانی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جس کی اخلاقی زندگی کا ہر ہر پہلو ہمارے سامنے اس طرح بے نقاب ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔ صرف معلم اعظم اور حسنِ انسانیتؐ کی حیاتِ طیبہ ہی وہ خاص انفرادیت رکھتی ہے کہ اس کا ایک ایک پہلو دنیا میں محفوظ اور اپنی اصل میں سب کے سامنے ہے۔ مشہور دانشور باسورتھ اسمتھ نے لکھا ہے کہ سیرت محمدیؐ پورے دن کی روشنی ہے جس میں محمدؐ کی زندگی کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے (سیرتِ محمدؐ) آپؐ کا خود یہ حکم تھا کہ میرے ہر قول اور عمل کو ایک سے دوسرے تک پہنچائو، محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو اس کو جلوت میں برملا بیان کردو، جو حجرے میں کہتے سنو اُس کو چھتوں پر چڑھ کر پکارو، فرمایا! حاضر، غائب تک میری بات پہنچادیا کرے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال سے بھی خوب نوازا تھا یہی نہیں بلکہ سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا عیسیٰ ابن مریمؑ تک تمام انبیا و رُسل کی تمام تر ظاہری و باطنی خوبیاں اکیلے مصطفیؑ کہنے والوں نے کہا ہے کہ حسن یوسفؑ سے متاثر ہو کر ذولیخا کی سہیلیوں نے اپنی اُنگلیاں کاٹ ڈالیں لیکن سیدنا یوسفؑ کے چہرے سے نگاہیں ہٹا نہ سکیں۔ لیکن میرے مصطفیؐ کو جنہوں نے دیکھا، پہلے ایمان لائے پھر گلے بھی کٹوا ڈالے لیکن آپؐ کے دامنِ اقدس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ احادیث و سیئر کی کتب میں متعدد اصحابؓ نے آپؐ کے چہرئہ پُرانوار کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے لیکن باعثِ حیرت یہ امر ہے کہ کوئی ایک ہی راوی آپؐ کے چہرے کے خدوخال اور حسن و جاذبیت کی تمام تر خوبیوں روایت نہ کرسکا اور اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ آپؐ کے چہرئہ مبارک پر وقار و دبدبہ اس قدر تھا کہ کوئی ٹکٹی باندھ کر کیسے دیکھتا اور ویسے بھی ادب کا تقاضا تھا کہ جھکی جھکی نظروں ہی سے شوقِ دیدار پورا کرلیا جائے۔
سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ آپؐ کا چہرہ آفتاب و مہتاب جیسا تھا (مسلم) خود روح الامین جناب جبرئیلؑ نے فرمایا کہ میں تمام مشارق و مغارب میں پھرا ہوا لیکن میں نے نبی اکرمؐ سے زیادہ کوئی شخص افضل و حسین و جمیل نہیں دیکھا۔ دربارِ نبوت کے عظیم نعت خواں سیدنا حسان بن ثابتؓ نے بجا فرمایا ہے کہ
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلا النساء
خُلقت مبرء من کل عیب
کانک خلقت کما تشاء
یعنی آپؐ سا حسین کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور آپؐ کا سا جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔ آپؐ ہر عیب سے اس طرح پاک صاف پیدا کیے گئے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا آپؐ خالق سے کہتے چلے گئے کہ مجھے ایسا بناتا جا اور وہ بناتا چلا گیا۔بہتوں نے آپؐ کے چہرئہ مبارک کو چاند سے تشبیہہ دی لیکن بہتوں نے کہا۔
چاند سے تشبیہہ دینا یہ بھی کوئی انصاف ہے
چاند کے چہرے پر جھائیاں، میرے محمدؐ کا چہرہ صاف ہے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مزید آگے بڑھے ہوئے قوم کی رُشد و ہدایت کے لیے نبی کریمؐ کے پورے اسوئہ حسنہ کو سامنے لانا ہوگا تا کہ آج کا مسلمان سر سے پیر تک، ظاہر سے باطن تک، گھر سے مسجد اور مسجد سے تمام کاروبار ہائے زندگی تک مکمل مسلمان بن کر ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو‘‘ کی عملی تصویر بن سکے۔
عام طور پر نبی آخر الزماںؐ کی سیرت بیان کرتے ہوئے محض آپؐ کے حسن و جمال کا تذکرہ کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ نعتیہ شاعری میں بھی اندازِ تبسم، ابروئے چشم اور گیسوئوں ہی کو موضوع داد سخن بنایا گیا ہے، گویا دوسرے لفظوں میں سارا ذکر نبیؐ کی اُس حیثیت کا کیا جارہا ہے جو محمدؐ بن عبداللہ کی ہے، محمد رسول اللہؐ کی حیثیت سے آپؐ نے دنیا کو امن و آشتی کا جو چلن دیا، اپنے عمل سے انسانی حقوق کا جو چارٹر عطا کیا اور اپنی 23 سالہ نبوت کی زندگی میں جو اُسوئہ حسنہ چھوڑا، اکثر اُسے اس طرح بیان نہیں کیا جاتا کہ وہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے انقلاب آفریں ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان پیغمبرؐ کے عظیم اُمتی ہونے کے باوجود ہم مختلف اور عجیب قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہیں، تمدن، وضع قطع اور معاشرتی رکھ رکھائو سے ہم کسی بھی طرح محمدی معلوم نہیں ہوتے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ محض عشق مصطفیؐ کے زبانی دعوے کرلینے سے ہمارا ایمان کامل نہیں ہوتا کہ اطاعت و تابعداری کے بغیر محبت معتبر نہیں کہلائے گی۔نبیؐ کی ساری زندگی اسلام کے غلبے و فروغ کی کوششوں سے لبریز ہے یہی وہ مقصد اولین تھا کہ جس کی تکمیل کے لیے آپؐ کو مبعوث فرمایا گیا کہ ’’اللہ وہ ذات ہے کہ جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ یہ اُسے تمام ادیان پر ظاہر و غالب کردے‘‘ (القرآن)