داعش کے قلعے موصل پر یلغار

193

ک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ آخر 2 سال پہلے کس کے دم پرآناً فاناً شام سے داعش کی سپاہ اُٹھیں اور انہوں نے بلا کسی روک ٹوک اور امریکا کے جاسوسی سیارچوں کو جُل دے کر، پانچ سو کلومیٹر دور عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل اور کردستان کے شہر اربیل کے مضافاتی علاقے پر قابض ہوگئیں۔ داعش کی فاتح سپاہ نے جب کردستان کی جانب پیش قدمی کی تو امریکا نے تیل سے مالا مال اس علاقے پر جس پر خاص دست شفقت ہے، اربیل پر سخت بمباری کر کے داعش کی سپاہ کو پیچھے موصل میں دھکیل دیا۔ امریکا نے نہ اس وقت ان سپاہ کو موصل سے کھدیڑنے کی کوشش کی اور نہ پچھلے 2سال کے دوران خود یا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر موصل کو آزاد کرانے کے لیے کوئی فوجی کارروائی کی۔ اُس وقت سارا زور امریکا اور اس کے اتحادیوں کا شام کے صدر بشار الاسد کا تختہ اُلٹنے کے لیے باغیوں کی بھر پور فوجی اور مالی امداد دینے پر تھا۔
اب جب کہ داعش نے افریقا میں نائجیریا سے لے کر افغانستان اور جنوبی ایشیاء تک بیس سے زیادہ گڑھ بنالیے ہیں اور پچھلے 2 برس میں ہر ماہ ایک سو پچاس سے چار سو حملوں تک اضافہ کر لیا ہے، اس ہفتہ کے اوائل میں، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے 5 ہزار فوجیوں کی قیادت میں اور اتحادیوں کی بمباری کے چھاتے میں، 30 ہزار عراقی فوج، 10ہزار کرد، پیش مرگوں اور بڑی تعداد میں شیعہ ملیشیا نے موصل پر یلغار شروع کی ہے۔ مشرق میں اس یلغار میں کرد پیش مرگا پیش پیش ہیں اور جنوب میں عراقی فوج پیش قدمی کر رہی ہے۔ اور شمال میں شیعہ ملیشیا اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ حکمت عملی کے طور پر شیعہ ملیشیا کو سُنی اکثریت کے شہر میں داخلہ سے روکا گیا ہے کہ کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ نہ بھڑک اُٹھے۔
موصل جو 2 برس سے داعش کا قلعہ ہے نہ صرف اس بناء پر اہم ہے کہ اسی شہر کی جامع مسجد سے، ابو بکر البغدادی نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا، بلکہ، اس لحاظ سے بھی بے حد اہم ہے کہ تیل کے وافر ذخائر کے ساتھ یہ کردستان کے دروازے پر واقع ہے اور اس سے زیادہ اہم اس کی فوجی اہمیت ہے کہ یہ شام میں داعش کے مرکز، رقہ جانے والے راستہ پر ہے۔
پچھلے دنوں، موصل سے متصل صوبہ انبار، فلوجہ اور تکریت کو داعش سے آزاد کرانے کے لیے جو کارروائی کی گئی تھی اس کے دوران داعش کی سپاہ جس تیزی سے پسپا ہوئی تھیں اور عراقی فوج نے جس آسانی سے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا، اس کے پیش نظر توقع تھی کہ یلغار کے فوراً بعد موصل آزاد ہو جائے گا، لیکن موصل کے آس پاس دیہاتوں میں اتحادی فوجوں کو غیر متوقع طور پر جس شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے بعد امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل اسٹیفن ٹاونسینڈ کا کہنا ہے کہ موصل کو آزاد کرانے میں کئی ہفتے بلکہ کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ ابھی تک پیش مرگا اور نہ عراقی فوج، موصل کے شہر کے قریب پہنچ پائی ہے کیوں کہ راستے میں بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور مزاحمت کے لیے سرنگوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔
2 سال قبل موصل پر داعش کے قبضے کے بعد، شہر کے 5 لاکھ افراد فرار ہو چکے ہیں، لیکن اب بھی شہر میں 10لاکھ سے زیادہ شہری ہیں۔ اقوام متحدہ نے، حملے کی صورت میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ امریکیوں کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر داعش کی سپاہ نرغے میں آگئیں اور انہیں شکست سامنے نظر آئی تو خدشہ ہے کہ سپاہ ہتھیار پھینک کر شہریوں میں گھل مل جائیں گی اور اس صورت میں داعش کی سپاہ اور عام شہریوں میں تفریق اور ان کی نشان دہی مشکل ہو جائے گی۔
گو یہ کہا جا رہا ہے کہ موصل پر یلغار داعش کا قلع قمع کرنے کی بھرپور کوشش ہے اور بلا شبہ، موصل میں داعش کی شکست، امریکی اتحادیوں کے لیے ایک اہم کامیابی ہوگی لیکن، فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ داعش کا آخری باب نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر موصل کو آزاد کرا لیا گیا اور داعش کو یہاں سے کھدیڑ دیا گیا تو اس صورت میں داعش کی سپاہ بکھر کر زیادہ شدت سے عراق، شام اور یورپ میں حملے کرسکیں گی۔ بیش تر مبصرین کی رائے ہے کہ داعش کی تباہی اُسی صورت میں مکمل ہوگی جب کہ عراق میں بنیادی تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں اور اس وقت حکومت اور سیاست پر جس مہلک انداز سے فرقہ پرستی چھائی ہوئی ہے وہ نہیں چھٹتی اور عراق میں سنیوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اسی کے ساتھ لازمی ہے کہ شام میں موجودہ خانہ جنگی ختم ہو جس کا داعش کے عروج سے گہرا تعلق ہے۔
بعض ماہرین کی رائے ہے کہ امریکیوں کا اصل مقصد، موصل سے داعش کا قلع قمع کرنے سے زیادہ، داعش کی سپاہ کو شام میں دھکیلنا ہے تاکہ یہ بھر پور طور سے صدر بشار الاسد کی حکومت اور اس کے اتحادی روس کے خلاف لڑ سکیں۔ امریکا کا اس وقت تمام تر زور شام میں صدر اسد کے خلاف لڑائی پر ہے اور اسے توقع ہے کہ موصل سے پسپا ہونے والی داعش کی سپاہ، باغیوں کے ساتھ مل کر اسد اور روسیوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑ سکیں گی۔ اسی حکمت عملی کے پیش نظر، موصل میں داعش کی سپاہ کی شام فرار کے لیے ایک راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔
درایں اثناء موصل کی یلغار میں ایک پیچیدگی، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے اس دعوے سے پیدا ہوگئی ہے کہ موصل دراصل ترکی کا علاقہ ہے۔ اس دعوے کے سلسلے میں انہوں نے 1920 کی وہ میثاق ملی پیش کی ہے جو سلطنت عثمانیہ کی پارلیمنٹ نے منظور کی تھی جس کے تحت کرکوک اور موصل کو ترکی کا علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ عراقی حکومت کو اس بات کا خطرہ تھا اسی لیے حکومت نے موصل میں آباد ترکوں کو بڑے پیمانے پر نکالنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بہرحال ترکی اس وقت، موصل پر یلغار میں امریکی اتحاد کا ساتھ دے رہا ہے۔