عارف میمن

173

دریائے سندھ کی کہانی بڑی درناک ہے اورہم نے اس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ شاید آئندہ نسل کے لیے ہم کچھ نہیں چھوڑناچاہتے۔ لاکھوں ہیکٹرزمین سمندربرد ہوچکی ہے اوراگر یہی صورت حال رہی تو مزید زمین سمندربرد ہوجائے گی۔ ہمارا دریائی ایگری کلچر، کوسٹل ایگری کلچر اورہماری فریش واٹر فشری پر انتہائی برے اثرات پڑے ہیں، ہمارے جو جنگلات تھے، وہ بھی مضمرات سے بچ نہ سکے۔ ان کے علاوہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے، جو یہاں رہتے تھے۔ ان کا روزگار، ان کا معاش دریاکی مچھلی سے وابستہ تھا، ایگری کلچر سے تھا، جن لوگوں کا تعلق کوسٹل ایریاز سے تھا وہ بھی وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں ۔12 برس پہلے جن لوگوں نے نقل مکانی کی، صرف ان کی تعداد 92 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ آج بھی لوگ وہاں سے نکل نکل کر شہروں اورسندھ کے دوسرے اضلاع میں جائے پناہ تلاش کررہے ہیں۔ کچھ کینجھرجھیل، ہالیجی، یہاں تک کے منچھر جھیل کو نکل گئے۔ اس حوالے سے ڈاکٹرطاہر قریشی بتاتے ہیں کہ جب ہم نے اس نقل مکانی کے حوالے سے سروے کرایا تو وہاں کے لوگوں نے ہاتھ جوڑ کر بتایا کہ سائیں ہم برباد ہوگئے، ہم یہاں مزدوری کررہے ہیں اورہماری بہن بیٹیوں کی عزت وآبرو وہاں خطرے میں ہے، ہم کراچی گئے توکراچی کے ماہی گیروں نے ہمیں دھتکاردیا، ہم سندھ واپس آئے تو یہاں کے لوگ قبول نہیں کرتے۔ اب یہاں مزدوری کرکے کسی نہ کسی طرح اپنے پیٹ کے دوزخ کو بجھارہے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ جو معاشرتی مسائل ہیں، ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے، وہ بے چارے یارومددگار ہیں۔ ہم اپنی قوم کو ترقی کے نام پر کیا دے رہے ہیں؟ اگردیکھناہے ڈاؤن اسٹریم پر جاکر دیکھیں، وہاں ہم کیاکررہے ہیں؟ وہ لوگ برباد ہوچکے ہیں کیا، ان کا کوئی والی وارث ہے نہیں یا پھر وہ لوگ، جوڈاؤن اسٹریم پر رہتے ہیں، پاکستانی نہیں ہیں۔
ہمارا ایری گیشن سسٹم فیل ہوچکا ہے
اپ اسٹریم پر توبڑے فخر سے کہاجاتاہے کہ ہم نے اتنے کروڑ ایکڑ زمین سیراب کردی، ہم نے فلاں ڈیم بنادیے، ہم نے برج بنادیے، ہم نے بڑے بڑے بیراج بنادیے۔ وہاں پرترقی ہورہی ہے، خوش حالی آرہی ہے، مگر ڈاؤن اسٹریم پر جو صورت حال ہے، وہ کسی کو نظر نہیں آرہی کہ وہاں کیا برباد کردیا گیا ہے۔ 10، 20 لاکھ ہیکڑ زمین جو ہم نے برباد کردی ہے، اس کا کیا بنے گا اور جو لاکھوں لوگ وہاں رہتے تھے، ان کا کیابنے گا؟ ان کے بارے میں حکومت نے اس وقت سوچا، نہ ہی پاکستان بننے کے بعد کچھ سوچا۔ کاروبار تو خوب چل رہا ہے، مگر دریا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ختم ہورہا ہے۔ ہمارا ایری گیشن سسٹم، جو دنیاکا سب سے بڑا سسٹم کہلاتاہے، فیل ہوچکاہے۔ اب سندھ کو واٹر ڈیفیشن فارمنٹ کہتے ہیں اور پاکستان کو واٹر ڈیفیشن کلٹی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے، وہ جگہ، جہاں پانی کم ہوتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھاکہ ہم دنیاکو بتاتے کہ ہمارے پاس سب سے زیادہ پانی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنی نہریں اوراتنی ڈسٹری بیوٹریٹ، اتنی مائنر، اتنے واٹر چینلز ہیں کہ کبھی پانی کی قلت کا سامنا ہی نہ کرنا پڑتا، مگر افسوس کہ قدرتی اورمصنوعی جھیلیں اوردریاؤں کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں اس قلتِ آب کا سامناہے۔
سمندرکومزیدآگے آنے سے روکنے کے لیے درخت لگاناہوں گے
طاہرقریشی اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ایگری کلچر کے کچھ ماہر، جن میں ادریس راجپوت سیکریٹری ایری گیشن ہواکرتے تھے، ان سے میری بڑی تفصیل سے بات ہوئی۔ اس وقت کچھ لوگ کہاکرتے تھے کہ سہون کے پاس جہاں دریائے سندھ گرتا ہے، یہاں ہم ایک ڈیم بناسکتے ہیں اوراس سے بجلی اوردیگر کام لے سکتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ادریس راجپوت نے اس پر کہاکہ ہمارا پانی چالیس سے پچاس فٹ سے نیچے نہیں گرتا۔ سندھ میں کہیں ایسی جگہ نہیں جہاں واٹرفال کی طرح پانی نیچے گرے، جب کہ یہاں توصورت حال ہی کچھ اور ہے، پانی کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔گڈوبیراج سے ہی پانی کی کمی شروع ہوجاتی ہے تو ہم یہاں کیسے ڈیم بناسکتے ہیں؟ جب کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال تھاکہ سمندرکو ہم اس طریقے سے روک سکتے ہیں کہ یہاں ایک بیراج بنادیں۔ اب ایک بیراج کا جو گیٹ ہے، وہی کروڑوں اربوں روپے کا بنتاہے اوریہ دوسوکلومیٹرلمبا ایریا ہے توکیا ہم دوسوکلومیٹر پر بیراج بنانے کی پوزیشن میں ہیں اورکیا پوری دنیا میں کہیں بھی دوسوکلومیٹر تک کابیراج بناہے؟
انجینئرز اس مسئلے کے حل کی جو بات کرتے ہیں تو وہ انوائرمنٹل فرینڈلی ہیں، نہ ہی وہ انوائرمنٹ کوفائدہ پہنچائے گی اورنہ ہی وہ لاگت ہم پوری کرپائیں گے، کیوں کہ وہ چیزیں سستی نہیں ہیں، وہ بہت مہنگی چیزیں ہوں گی۔ ہم ڈیلٹامیں دیوارتو نہیں بناسکتے، اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم سمندرکو اگر روک سکتے ہیں تو اس کے ڈیلٹا میں درخت لگائیں اور ایسے لگائیں کہ درخت ہی دیوار بن جائیں، اس سے کم سے کم جو پانی بہتا ہوا آرہاہے وہ تورک جائے گا، کچھ نیچے چلاجائے گا، کچھ آگے چلاجائے گا، مگر اس وقت سمندرکا پانی تیزی سے اوپر ہی کی طرف آرہا ہے، جس سے دریا کا قدرتی پیٹ بھی کافی حد تک خراب ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اکثر لوگوں سے کہتاہوں کہ آپ عارضی حل کی طرف نہ جائیں، بعض اوقات تو ٹھیک ہے، معاملہ حل ہوجاتا ہے، مگر کہیں اگرآپ کے پاس آپشنز ہیں توآپ اسے استعمال کریں۔ سمندرکو روکنے کے لیے اگر آپ دیوار بنائیں گے، جس میں اربوں کھربوں روپے لگ جائیں گے تو اس کا پھرکوئی فائدہ نہیں ہوگا اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کا بجٹ بھی اتنا نہیں ہے۔ یہ سب خام خیالی باتیں ہیں۔ آپ صرف درخت لگائیں اورایمان داری سے لگائیں، یہ ہی ایک سستا اور پائیدارحل ہے۔
پانی کا بے دریغ استعمال کمی کا باعث بن رہا ہے
ایک سو اٹھارہ ملین ایکڑ فٹ پانی 1892 میں تھا۔ 1932-35میں سکھربیراج بنا، جو پہلابیراج تھا، اس کے بعد کوٹری بیراج بنا۔ پھر60 کی دہائی کے اول میں کشمورکا گڈوبیروج بنا۔ ان بیراجوں سے نہریں نکالی گئیں، جس سے پانی 1892 والی پوزیشن سے بھی کم ہوگیا ہے۔ پھرجہلم پر ڈیم بنا، تربیلاڈیم، وارسک ڈیم اوردیگر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے گئے، اس طرح پانی کم ہوتا چلاگیا۔ جوڈیم بنائے گئے وہ تین مقاصد کے لیے بنائے گئے۔ ایک پانی کواسٹورکرنا، دوسرا زرعی اراضی کو سیراب کرنا، تیسرا مقصد بجلی پیداکرنا تھا۔ بیراجوں توپانی کو روکتے اورڈائیورٹ کرتے ہیں، بیراج الگ چیز ہیں، ان میں پانی اسٹورنہیں ہوتا، تاہم زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے مقصد سے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی وجہ سے پانی کافی کم ہوگیا ہے، پھر سندھ طاس معاہدے کے بعد سے جو پانی کی کمی ہوئی ہے، وہ الگ ہے ۔ 1991-92 میں صوبوں کے درمیان جب پانی ریکارڈ کیا گیا، اس وقت کہا گیا کہ ہمارے پاس کافی پانی ہوگا تو ہم دس ملین ایکڑفٹ پانی کوٹری بیراج سے چھوڑیں گے۔کہاں ایک سوپچاس ملین فٹ ایکڑ پانی گزرتا تھا اورکہاں دس ملین ایکڑ فٹ پانی کا کہاگیا ہے۔کیا اس سے لگتاہے کہ وہاں کی زراعت، وہاں کی ماہی گیری، وہاں کے جنگلات اور وہاں کے لوگ اتنے خوش حال رہے ہوں گے؟ کیا اس سے وہاں کی لائیواسٹاک، وہاں کی میرین لائف، وہاں کے چرند پرند، ایسے ہی ہوا پرزندہ ہوں گے۔ ایک وقت تھا،جب ٹھٹھہ ڈسٹرکٹ میں اتنا بڑا لائیواسٹاک تھاکہ وہاں کے لوگ دودھ بیچنا گناہ سمجھتے تھے۔ وہاں کی میونسپلٹی اتنی مضبوط تھی کہ اس نے کراچی میونسپلٹی کو قرضہ دیا تھا۔ ہمارے اپ اسٹریم پرہونے والی ڈیولپمنٹ کے حوالے سے تو بہت کچھ ہے کہنے کو، مگر ڈاؤن اسٹریم پر کیاہوا، اس پر کچھ نہیں ہے۔ وہاں کے عام آدمی پر کیاگزری، یہ اس سے بہتر کون جان سکتاہے، مقامی آدمی توآج دربدرہے۔ سندھودریاسے جن جن کا روزگار وابستہ تھا، وہ سب تو نقل مکانی کرچکے ہیں، جو بچ گئے ہیں، وہ بہت برے حال میں ہیں۔
حکومتی مشینری، واٹرمنیجمنٹ پر فیل
کے ٹی بندر آج جس جگہ موجود ہے، وہ تیسری بار آباد ہوا ہے، اس سے پہلے وہاں کے لوگ دومرتبہ جگہ تبدیل کرچکے ہیں، اسی طرح متعلقہ ڈپارٹمنٹ، جن کا کام ہے، مردم شماری کرنا انہیں اعداد شمار رکھنے چاہئے تھے، مگر وہ کام بھی ہم اچھے سے نہیں کررہے ہیں۔ انڈیا میں کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں وہاں پنچایت سسٹم آپ کو ا س طرح کام کرتا ہوا ملے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ ان کے پاس ہر کسی کا مکمل بائیوڈیٹا موجو د ہے، جس میں مردم شماری، صحت، تعلیم، پانی اورہر گاؤں کے اعداد وشمار مل جائیں گے۔ وہ لوگ اپنے طورپر کام کرتے ہیں، ان کے گاؤں کے (موکھیا) جنہیں ہم چوہدری، وڈیرہ کہتے ہیں، انہوں نے اپنے گاؤں والوں کے لیے چھوٹے چھوٹے بینک تک بناکر رکھے ہیں، جن سے وہ اپنے چھوٹے بڑے مسائل حل کرلیتے ہیں، وہ ہر چیز کے لیے سرکار کے محتاج نہیں ہوتے۔ انسان کی زندگی پانی پر ہی منحصر ہے ۔ دنیامیں کہیں ایسا نہیں ہوتا،جیسا ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ ہمارے بیراجوں اورکینالوں پر تعینات لوگ پانی چھوڑتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہاں کاپانی کہاں چھوڑناہے، بس پانی چھوڑکرحقہ پینے بیٹھ جاتے ہیں، انہیں یہ نہیں پتا ہوتاکہ پانی کہاں جارہاہے؟ پانی پر ایسی عیاشی اب بند کرنا ہوگی۔ پانی کی کمی پر ماہرین، انجینئرز اوراین جی اوز ہمیں بتا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود ہم کاشت کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کررہے، پانی کی تقسیم کو تبدیل نہیں کیا جارہا ہے، نل کھول کر پانی ضائع کرنا وطیرہ بن چکاہے۔ سرکار کی تمام ترمشینری واٹرمنیجمنٹ پرفیل ہوچکی ہے۔ اگر حکومت چاہتی تو قطرہ قطرہ پانی بھی جمع کرکے ایک چھوٹا سا ڈیم ہی بنالیتی، ایک چھوٹا سا کنواں ہی بنالیتی، کم ازکم ان چھوٹی چھوٹی بچتوں سے کچھ تو فائدہ ہوتا، مگر اس پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی، جو پانی کھارا ہوگیا، اس پر بھی کچھ نہیں کیا گیا۔
پانی کو ری سائیکل اورریسرچ کا کوئی نظام نہیں
آج جو آر او پلانٹ لگائے جارہے ہیں، ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجی ہے، مگر یہ بہت پرانی ٹیکنالوجی ہے، یہ پہلے کیوں نہیں لگائے گئے۔ پانی کو ری سائیکل کرنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے ہمارے پاس۔ گندے پانی ہی کو ری سائیکل کرکے ہم اسے بہت سے کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں، اس پانی سے ہم زمینوں کو سیراب کرسکتے ہیں، جنگلات کو ہرا بھرارکھنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے، مگرافسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس ابھی تک ریسرچ کاکوئی معقول نظٖام موجود نہیں۔ پنجاب میں حالات پھر کچھ بہتر ہیں مگر سندھ اوربلوچستان کے حالات پانی کے حوالے سے سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس پانی کے ڈسٹری بیوٹریشن کرنے والے ادارے، جو ہر سال صوبوں کو پانی فراہم کرتے ہیں، سندھ، بلوچستان، این ڈبلیوایف اور پنجاب کو حریف اور ربیع میں وہ کوٹہ فراہم نہیں کرتے، جو دینا چاہیے۔ پانی کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں ڈیم کہاں بنایاجاسکتا ہے؟ ہوا میں ڈیم نہیں بنتے، واٹر ایکٹ میں ایک شق ہے، جس میں لکھا ہے کہ ہمارا ایری گیشن ڈپارٹمنٹ ڈاؤن اسڑیم کوٹری بیراج میں لوگوں کی ضروریات معلوم کرے گا کہ زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے کتناپانی چاہیے۔ اورجب پانی ٹھٹہ ڈسٹرکٹ میں آئے گا تو وہاں کتنی ضرورت ہے، بدین کو کتناپانی چاہیے، اسی طرح کراچی کو کتناپانی درکار ہے وغیرہ وغیرہ۔ پنجاب میں لوگوں نے اعدادوشمار جمع کرکے رپورٹ تیار کرلیں، مگر سندھ والوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ جب ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہوگا توہم لڑیں گے کیسے، بغیر اسلحے کے تو جنگ بھی نہیں جیتی جاتیں ۔ یہ ہماری خامیاں ہیں، جسے دورکرنے کی ضرورت ہے ۔
انڈیا کی قوم ایک زندہ قوم ، چین اکنامک کے
حوالے سے دنیا فتح کررہا ہے اور ہم۔۔۔
ہم نے مستقبل کے لیے کیا پلاننگ کی ہے،شاید اس کاجواب نفی ہی میں ملے گا۔ سچ کڑوا ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی قوم زندہ قوم میں شمار ہوتی ہے اورہم بحیثیت قوم کے ابھی تک سوئے ہوئے ہیں۔ چین ہی کو دیکھ لیں، جب تک افیون کاشت کرتے تھے، اس وقت تک وہ سوئے ہوئے تھے، مگر جب ماؤز ے تُنگ نے انہیں جگایا تو وہ ایسے جاگے کہ آج اکنامک کے حوالے سے پوری دنیاکو فتح کررہے ہیں۔ وہ وقت بھی بہت قریب ہے، جب ان کی ملٹری اتنی بڑی ہوگی کہ پوری دنیا ان سے تھرتھر کانپے گی، انہوں نے اپنے لوگوں کو محنت اور کام کی مشین بنادیا۔ قریباً ایک ارب 40‘45 کروڑ لوگ تین وقت کا کھاناکھاتے ہیں اور خوش حال زندگی بسر کررہے ہیں ۔ جب کہ ہمارے یہاں تین وقت تو دور کی بات، غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے ۔
(جاری ہے)