ڈاکٹر نثار احمد نثار

225

جسارت سنڈے میگزین: ڈاکٹر صاحب اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایئے۔
ڈاکٹر شاداب: میری تاریخ پیدائش 14 اگست 1957ء ہے اور میں ناظم آباد کراچی میں پیدا ہوا تھا‘ اس زمانے میں وہاں ’’اپوا اسپتال‘‘ ہوا کرتا تھا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ ابھی اسپتال میں تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی وائف رعنا لیاقت علی نے اپوا اسپتال کا دورہ کیا اس طرح میں نے اپنی جاگتی آنکھوں سے بیگم رعنا لیاقت کو دیکھا۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ بیگم صاحبہ نے مجھے پیار بھی کیا تھا۔ میرے والدین قروع باغ دہلی‘ بھارت سے 1947ء میں ہجرت کرکے حیدرآباد سندھ میں آئے جہاں میرے والد نے یونانی میڈیسن کی پریکٹس کی یعنی حکمت کا دواخانہ کھولا جب کہ میرے والد 1939ء میں محکمہ پولیس سے ریٹائرڈ ہوئے تھے ان کی شادی 1946ء میں ہوئی۔ ہمارا خاندان صاحبِ ثروت گھرانوں میں شمار ہوتا تھا Grand less Bank of India میں میرے والد کے اکاؤنٹ میں اس وقت 80ہزار روپے جمع تھے لیکن ہم وہ رقم حاصل نہ کرسکے اور فسادات شروع ہوگئے لہٰذا ہم بھی مشکلات کا شکار ہوئے اور ہجرت کی صعوبتوں سے گزر کر پاکستان آگئے۔
ہمارا خاندان نقش بندی سلسلے کے ایک بزرگ ’’حضرت امیر خلالؒ ‘‘ سے جڑا ہوا تھا۔ حضرت امیر خلالؒ مشہور زمانہ بادشاہ امیر تیمور کے پیر تھے اور بہاء الدین نقش بندی بھی امیر خلال کے مرید تھے۔ ہمارے خاندان میں پیری مریدی کا سلسلہ رائج رہا یعنی ’’تصوف‘‘ میرے خون میں شامل ہے۔ حیدرآباد سندھ میں ہماری گزر اوقات ہو رہی تھی کہ نہ جانے کیوں میرے والدین ناظم آباد کراچی شفٹ ہوگئے۔ یہاں آکر میرے والد نے جیک لائن نظامی روڈ پر ’’مطب‘‘ ڈالا۔ جب 1958ء میں قائد آباد‘ مزار جناح کے اطراف میں آباد جھگی نشینوں کو کورنگی ٹاؤن شپ میں شفٹ کیا گیا تو میرے والد نے بھی لانڈھی میں سکونت اختیار کی اور اپنے مکان میں ’’کلینک آف یونانی میڈیسن‘‘ قائم کیا۔ اس نقل مکانی کے سبب میں بھی لانڈھی کے مکان میں آگیا۔ میں نے گورنمنٹ اردو بوائز پرائمری اسکول نمبر 5 لانڈھی 3-A سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ گورنمنٹ اردو بوائز پرائمری اینڈ سیکنڈری اسکول گوشت مارکیٹ لانڈھی سے پرائمری جماعتیں پاس کیں۔ ہم اپنے گھر سے اسکول جانے کے لیے لانڈھی تھانے سے گزرتے تھے اور تھانے کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے تھے اب تو تھانے کے قریب سے بھی گزرنے پر خوف آتا ہے کہ نہ جانے کس جرم میں دھر لیے جائیں۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ شاعری کی طرف کب اور کیسے آئے؟
ڈاکٹر شاداب: میرے والد حکیم سلطان احمد دہلوی قادرالکلام شاعر تھے‘ وہ مشاعروں میں بھی جاتے تھے۔ میرے والد کے مطب پر شاعروں کی آمدورفت رہتی تھی اس وقت لانڈھی کورنگی میں شاعروں کی کہکشاں جگمگا رہی تھی۔ میں نے 1967ء میں نیر مدنی کی صدارت میں پہلا مشاعرہ پڑھا تھا۔ اس وقت میری گیارہ برس تھی اور وہ طرحی مشاعرہ تھا۔
جسارت سنڈے میگزین: علمِ عروض کے بارے میں کچھ بتایئے۔
ڈاکٹر شاداب: خیمے کو سہارا دینے والا بانس‘ عروض کہلاتا ہے‘ شاعری ایک خیمہ ہے اور عروض بانس ہے‘ بانس کے بغیر خیمہ تن نہیں سکتا اس لیے جس کو عروض نہیں آئے گا اس کی شاعری کا خیمہ معلق رہے گا‘ گویا شاعری عروض کی پابند ہے‘ علم وعروض وہ فن ہے جس سے کلامِ موزوں اور ناموزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ عروض ایک ایسا علم ہے کہ اس سے شعر کا صحیح اور سقیم دریافت ہوتا ہے۔
علمِ عروض آسمان سے نازل نہیں ہوا‘ لیکن علم عروض عربی شاعری سے وجود میں آیا ہے۔ 1930ء میں نظم طبا طبائی نے ایک رسالہ نکالا جس میں انہوں نے کہا کہ لوگ عربی کو بھولتے جارہے ہیں‘ فارسی پر زیادہ فوکس ہے۔ 20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں حرف و نحو کی روایت تھی‘ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن جب یہ روایتیں دم توڑ گئیں تو شاعری میں عروضی مسائل پیدا ہوگئے۔ خلیل ابن احمد نی عروض بنایا تو اس نے عربی زبان کو مدنظر رکھا اس کے نزدیک علمِ عروض کے تین اجزا ہیں سبب‘ وتد اور فاصلہ۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اردو زبان ایک مرکزی زبان کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ اردو والوں نے عروض کو عربی زبان کے مزاج کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جب کہ اردو زبان میں ’’فاصلہ‘‘ ہے نہیں تو ضرور اس امر کی ہے کہ اردو زبان کے مطابق عروض کی تفہیم کی جائے۔ اس طرح عروض آسان ہوجائے گا۔ نجم الغنی عروض کے حوالے سے بہت زیادہ مشہور ہوئے لیکن انہوں نے بھی نقل نویسی کی ہے انہوں نے آوازوں کو اس طرح ٹریس نہیں کیا جو عربی سے اردو میں منتقل ہورہی تھیں۔ انہوں نے گردانیں بنائیں اور گردانوں کے نام رکھ دیے جب کہ سارا علم عروض گردانوں پر کھڑا نہیں ہے‘ گردانیں تو ایک طرح کا اسکیل ہے۔ عروض اصول سہ گانہ ہے‘ اصول سہ گانہ ہم اس لیے کہتے ہیں کہ عربی میں سبب‘ وتفد فاصلہ ہے اور اردو میں فاصلہ نہیں ہے اس لیے اردو میں اصولَ دوگانہ تو ہوسکتاہے اصولِ سہ گانہ نہیں۔ اردو میں سبب خفیف موجود ہی‘ وتد مجموع موجود ہے۔ سب ثقیل لنگڑا ہے اوروتدِ مفروق بھی لنگڑا ہے یعنی ہم سببِ ثقیل مانگے کا لیتے ہیں‘ دو متذحرک لفظ بغیر اضافت کے‘ بغیر فارسی روایت کے نہیں آسکتے جب ہم وتدِ مغروق کہیں گے تو اس کے اندر ایسا سہ حرفی لفظ چاہیے جو آخر میں ساکن بھی ہو اس کی ادائیگی عربی وتد انداز کی ہو‘ ایسا وتدِ مفروق اردو میں ملتا ہی نہیں ہے لہٰذا ہم اس کو سبب وسیع میں شمار کرتے ہیں۔ ان مثالوں کو آئینہ بناتے ہوئے آپ اردو کے عروض کی تفہیم کیجیے۔
جسارت سنڈے میگزین: ڈاکٹر صاحب یہ بتایئے کہ جو شخص عروض نہ جانتا ہو‘ کیا وہ شاعری کرسکتا ہے؟
ڈاکٹر شاداب: اردو زبان میں سب سے ’’ریفائن اظہار‘‘ شاعری کہلاتا ہے‘ خارجی اور داخلی کیفیات کو نظم کرنے کا نام شاعری ہے‘ کلچر‘ تہذیب کے زیر اثر ہوتا ہے‘ ہندوستانی تہذیب میں تقریباً چار‘ پانچ سو زبانوں کا عمل دخل ہے اور اتنے ہی کلچر شامل ہون گے یہ سب مل کر ایک یونٹ بنا رہے ہیں یہ یونٹ موسیقی اور پینٹنگ کور کرتے ہیں‘ وقت کے ساتھ محاورے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ علم عروض سے واقف نہیں ہوتے لیکن شاعری کر رہے ہیں۔ شعر میں غنائیت ہوتی ہے‘ مشقِ سخن کرتے کرتے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ مصرع بحر میں ہے یا نہیں البتہ علمِ عروض جاننے کے فوائد ہیں‘ نقصان کچھ بھی نہیں ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: کیا علم عروض کی مروجہ بحروں میں ترمیم و تنسیخ کرکے اشعار کہے جاسکتے ہیں؟
ڈاکٹر شاداب: جب ہم نے ایک فریم بنایا ہے‘ اس میں گائیگی کے ساتھ ساتھ احساس سمونے کی صلاحیت بھی ہے‘ لہجوں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عروض سیکھ کر شاعری مر جاتی ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ علمِ عروض ایک نافع علم ہے۔ شاعری ’’ودیعت الٰہی‘‘ ہے۔ علم عروض کی مروجہ بحروں میں کمی بیشی کرکے نئی بحر بنائی جاسکتی ہے‘ جس طرح ارکان کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی ہے اسی طرح ارکان کے حروف و حرکات میں تغیرات ہوتے ہیں اور وہی تغیرات زحاف کہلاتے ہیں۔ لفظ ’’زحاف‘‘ اگرچہ زحف کی جمع ہے اور زحافات جمع الجمع ہے لیکن عروضیوں کے یہاں زحاف لفظ واحد کی طرح مستعمل ہے۔ جن بحروں میں فاصلہ نہیں ہے ان بحروں میں توڑ پھوڑ کرکے کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے البتہ اوزان میں کمی بیشی کرکے اشعار کہے جاسکتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین: کراچی میں تنقیدی نشستوں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ کیا آج کے ناقدانِ سخن اپنا حق ادا کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر شاداب:ہر زمانہ اپنے لوگوں سے پہچانا جاتا ہے‘ ماضی پرستی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ دراصل ہم جب ’’بازیافت‘‘ کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم ماضی پرستی کر رہے ہیں۔ نئے زمانے کے نئے تقاضے ہوتے ہیں۔ ہر زمانے کا شاعر‘ ان تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اشعار کہتا ہے ہم دنیا کو Time سے مانیٹر کرتے ہیں اگر Time کو مائنس کر دیں تو سب کچھ معلق ہوجائے گا۔ تنقیدی نشستیں ہرزمانے اور ہر دور کی ضرورت رہی ہیں ان نشستوں میں صاحبان عقل و دانش کسی فن پارے کے عیوب و ہنر سے آگاہ کرتے ہیں اس طرح بہت سی نئی چیزیں سامنے آتی ہیں لوگوں کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ لفظوں کو کس طرح برتنا چاہیے۔ کراچی میں بہت سی ادبی اداروں کے تحت تنقیدی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ کم ہوتا جارہا ہے اس وقت اس شہر میں کوئی قابلِ ذکر تنقیدی نشست نہیں ہورہی اس قسم کی ادبی سرگرمیاں بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ناقدانِ سخن اپنی ذمے داریاں پوی کر رہے ہیں یا نہیں؟ تو جناب! بات یہ ہے کہ سچ بولنا بہت مشکل کام ہے اس وقت اس شہر میں سرور جاوید کچھ سچ بول رہا ہے لیکن ان کا یہ سچ بگاڑ پیدا کر رہا ہے اگر وہ اپنی کتاب ’’متاع نظر‘‘ میں یہ لکھتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی ایک پنجابی تخلیق کار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ فساد برپا کر رہے ہیں جب کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اردو کے فروغ میں اہلِ پنجاب کا کردار قابل ستائش ہے۔ ہمیں ان مکالموں کی طرف آنا چاہیے جو باہمی اتحاد کا باعث بنیں۔ میرے نزدیک آج کے بہت سے ناقدین‘ شاعری کے لوازمات سے واقف نہیں ہیں لیکن تنقید لکھ رہے ہیں‘ کتابوں پر تبصرے کر رہے ہیں۔ ہما راقد مبادیات سے واقف ہی نہیں ہے اگر کوئی شخص تدوینِ متن کر رہا ہے یا ایڈٹ کررہا ہے یا کوئی شخص شاعری پر بات کر رہا ہے تو بھائی! اس کو شعری پیمانوں اور شعری اوزان کا شعور ہونا چاہیے۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے کہ جس کو سرگم نہ آتی ہو اور وہ موسیقی پر گفتگو کرے۔ تو جناب کچھ اس قسم کی صورت حال ہے کہ بیشتر ناقدین ایسے ہیں کہ جن کو شاعری کا شعور نہیں ہے لیکن وہ ستائشِ باہمی کے اصول پر عمل کر رہے ہیں جس سے سچائیاں پسِ پردہ جارہی ہیں۔ آرزو لکھنوی‘ ارم لکھنوی‘ تابش دہلوی‘ خیام الہند حیدر دہلوی‘ جوش ملیح آبادی‘ قمر جلالوی‘ سیماب‘ آل رضا‘ یاور عباس اور اس زمانے کے دیگر لکھاریوں نے اپنے کلام سے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ میں نے ایک افسانے کا آرٹیکل لکھا وہ چھپ گیا‘ سحر انصاری نے مجھ سے کہا کہ اس میں میرا نام نہیں ہے‘ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کا نام افسانے کے تنقید نگاروں میں شامل نہیں ہے اگر میں آپ کا نام لکھ بھی دیتا تو کیا فرق پڑتا۔ اس پر وہ بہت چراغ پا ہوئے اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کو سچ برداشت نہیں ہوتا۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ ماہر تعلیم بھی ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہم اپنے ایجوکیشن سسٹم کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟
ڈاکٹر شاداب: ہم احساس کم تری میں مبتلا قوم ہیں۔ 1970 اور 1980ء کی دہائیوں میں او لیول کی Enrolment اور آج کے او لیول والوں کی Enrolment کا تقابلی جائزہ لیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم دوسروں کی تقلید میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اربابِ اختیار کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ نصابِ تعلیم میں ایسے مضامین شامل کیجیے جو نوجوان نسل میں محبت و یگانگت اور جذبۂ وطنی پیدا کریں اور ہم مختلف اقوام کے بجائے ایک قوم بن جائیں۔ ہمارا میٹرک اور انٹر کا تعلیمی نظام ناکارہ ہے۔ نقل مافیا اور کرپشن نے ان اداروں کو تباہ کر دیا ہے‘ بیورو کریسی سے عدالت کہتی ہے کہ آئینی رُو سے اردو سرکاری زبان ہے‘ عدالت فیصلہ دے چکی ہے‘ ذرا بتایئے تو آگے کیا ہوا؟ کیا عملی طور پر اردو کا نفاذ ہوگیا؟ جب کہ زبان کا مسئلہ تو اس ملک کی حب الوطنی کا مسئلہ ہے یہ ہمارے وجود کا مسئلہ ہے لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے آپ مستقبل میں پاکستانی کو کیا بنانا چاہتے ہیں یہ بات میری سمجھ میں نہیں رہی۔ ہم کب تک احساسِ کمتری میں مبتلا رہیں گے ہمیں اپنی تعلیمی درس گاہوں میں دور رس تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
جسارت سنڈے میگزین: اردو ادب کے فروغ میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کس حد تک اپنا کردار ادا کررہا ہے؟
ڈاکٹر شاداب: اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نہ ہوتا تو ارد کا چلن ایسا نہ ہوتا‘ اردو کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اپنا کام کررہے ہیں ورنہ عدالت یہ فیصلہ نہ دیتی کہ اردو کو سرکاری اداروں کی زبان بناؤ‘ الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہاں زبان و بیان کی صحت کا خیال نہیں رکھا جارہا جب کہ ماضی میں ریڈیو اور ٹی وی پر ’’اصلاحِ تلفظ‘‘ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی لیکن اس سے کچھ نہیں ہوتا‘ اردو کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ زبان زندہ انسانوں کی نمائندگی کرتی ہے‘ زبان لغت کی نمائندگی نہیں کرتی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے ملک میں کئی انگلش چینل کھولے گئے لیکن یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا‘ ہمیں اردو چینل کی طرف آنا پڑا۔ الیکٹرانک میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو وہ زبان پہچانا چاہتا ہے جو عوام الناس کی زبان ہے وہ لغت کی زبان میں بات نہیں کرتا۔ غلط العوام الفاظ سب کی سمجھ میں آجاتے ہیں‘ روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ استعمال کیجیے ورنہ فصاحت مجروح ہوگی لیکن تلفظ کی صحیح ادائیگی ضروری ہے۔ اردو کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش مت کیجیے جیسا کہ آج کل گفتگو کو ’’گفت گو‘‘ لکھ جارہا ہے۔ یہ طریقہ غلط ہے اس سے غلط پیغام جارہا ہے۔ نوجوان نسل اور ہمارے بچے گمراہ ہو رہے ہیں صاحبان قلمِ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق بنانا چاہیے۔
جسارت سنڈے میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
ڈاکٹر شاداب: کوئی بھی نظریہ وہاں زیادہ پھلتا پھولتا ہے جہاں معروضی حالات ایک جیسے ہوں‘ روس اور ہندوستان کے اُس وقت کے حالات ایک جیسے تھے وہاں بھی طبقاتی کش مکش ہورہی تھی اور ہندوستانی معاشرہ بھی طبقات میں بٹا ہوا تھا لہٰذا 1928ء میں حسرت موہانی نے بھی ترقی پسند تحریک کو ویل کم کہا‘ ان کا خیال تھا کہ اگر کمیونسٹ پارٹی ہندوستان میں آجائے تو شاید ہندوستانیوں کو بھی کچھ انصاف میسر آجائے حالانکہ حسرت موہانی اسلامی نظریات کے حامل تھے۔ جب ہم مختلف کلچرز پروان چڑھائیں گے تو ہمیں ایک سینٹرل لیگونج کی ضرورت پڑے گی‘ ایک مرکزی زبان سارے کلچرز کو آپس میں جوڑ دے گی۔ ترقی پسندوں نے انگریزی زبان کو مرکزیت دینے کی کوشش کی‘ اگر یہ اردو کو اہمیت دیتے اور بنگال میں بنگالی کو ترقی دیتے تو ترقی پسند تحریک کے اثرات زیادہ مؤثر ثابت ہوتے۔ میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ ہر زبان و کلچر کو فروغ ملنا چاہیے اس طرح افہام و تفہیم کا راستہ کھلتا ہے۔ ترقی پسندوں کے زمانے میں ایک وقت وہ آیا کہ جب اردو نظر انداز ہوئی جب کہ اردو لکھنے والے موجود تھے۔ ہم نے دوسروں کے تراجم کراکے ہندوستان میں تقسیم کیے‘ ہمارے ادیبوں کے کتنے تراجم ہوئے جو کہ دوسرے ملکوں میں رائج ہوئے آج تک ہم اس بات کی جنگ کر رہے ہیں کہ کیا اردو میں کوئی ایسا ادب پیدا ہوا جس کو نوبل انعام مل سکے۔ ترقی پسند تحریک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے‘ بھیم ڑی کانفرنس 1935ء میں مولوی عبدالحق کی صدارت میں فیض احمد فیض کو ترقی پسند تحریک میں شمولیت کی دعوت گئی اور فیض احمد فیض ترقی پسند ہوگئے۔
مذہب اسلام عرب سے ہندوستان آیا‘ کیا وہاں زندگی نہیں تھی کیا وہاں شاعری نہیں تھی‘ مذہبی خیالات کو دائیں بازو والوں نے اپنایا مفتی کفایت اللہ کو ترقی پسند بھی مانتے ہیں اور مذہبی خیالات رکھنے والا گروہ بھی ان کا دلدادہ ہے‘ ماہر القادری کو فیض صاحب کو ایک بڑا شاعر مانتے ہیں‘ رونا اس بات کا ہے کہ انہوں نے فاران میں کچھ اختلافی مضامین لکھ دیے تھے جو کہ صحت مندانہ علامت ہے‘ اختلاف رائے صحت مندی کی نشانی ہے‘ دو مختلف لوگوں میں اگر اختلاف نہیں ہوگا تو چیزیں کیسے بہتر ہوں گی۔
جسارت سنڈے میگزین: نثری نظم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر شاداب: نثری نظم ہمارے یہاں مغرب سے آئی ہے‘ شاعری میں ہیئت اہم نہیں ہے تخیل اہم ہے۔ شاعری ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے لیکن سند فضیلت کس صنف سخن کو حاصل ہے یہ فیصلہ صاحبان عقل و دانش کرتے ہیں۔ عنائیت کے بغیر شاعری نہیں ہوتی اور نثری نظم میں عنائیت نہیں ہوتی۔ ادب برائے مسرت‘ پلے جر میں فارمیشن کی اہمیت نہیں ہے کوئی بڑا خیال‘ کوئی چونکا دینے والا خیال قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے۔ 1865ء میں انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے کہا گیاکہ ’’ادب برائے زندگی ہے‘‘ اس طرح دو گروہ پیدا ہوئے ایک کہتا تھا کہ ادب برائے زندگی‘ دوسرا کہتاتھا ادب برائے مسرت۔
جدیدیوں نے کہ ہم ترقی پسندوں کو نہیں مانتے‘ ترقی پسندوں نے کہا کہ ہم جدیدیوں کو نہیں مانتے‘ جو لوگ اقلیت میں تھے وہ اسی حوالے سے کام کرتے رہے۔ مقصدیت کے ساتھ ساتھ کام کرتے رہے یہ جو علی گڑھ تحریک ہے وہ بین بین ہوگئی اس نے ایک پُل کا کردار ادا کیا۔ ترقی پسندوں نے اردو ادب میں نت نئے تجربات کیے‘ نثری نظم میں بھی انہی نظریات میں شامل ہے‘ جس طرح سونے کو پرکھنے کے لیے ایک کسوٹی مقرر ہے اسی طرح شاعری کے معیار کو جانچنے کے لیے علم عروض موجود ہے جس نظم میں کچھ نیا پن ہوتا ہے کوئی انوکھا تخیل پیش کیا جاتا ہے تو کچھ لائن بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن بات یہ ہے کہ جو مصرعے مجھے اچھے لگتے ہیں کیا وہی مصرعے آپ کو بھی پسند ہیں یا نہیں۔ ہر شخص کا معیار الگ الگ ہے۔ شاعری میں موسیقیت ضروری ہے‘ اگر ہم کسی سُر کے بغیر اَلاپ لگائیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ شاعری کا حُسن ترتیب و توازن میں ہے۔ نثری نظم میں نہیں۔
جسارت سنڈے میگزین: موجودہ حالات میں آپ کتب بینی کے بارے میں کیا رائے دیتے ہیں؟
ڈاکٹر شاداب:ہندوستان میں زبان کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھی گئی۔ آریہ آئے تو انہوں نے اپنی زبان و کلچر کو پروان چڑھایا‘ مسلمان آئے تو انہوں نے فارسی کو فروغ دیا۔ انگریز آئے تو انہوں نے انگریزی کا نفاذ کیا یہ عمل تواتر سے جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ اردو ایک مقامی زبان ہے اس زبان کے سو فیصد مصادر مقامی ہیں اس اعتبار سے ہندوستان میں فارسی زبان تقریباً چھ سو برس تک چلی آج برصغیر ہندو پاک میں ڈھونڈنے سے کوئی شخص فارسی کا ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ غیر فطری انداز میں چیزوں کوآگے بڑھائیں گے تو صدیاں گزرنے کے بعد بھی آپ مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔سمعی روایتوں کے ساتھ ساتھ کتب بینی کا عمل نصابی عوامل سے جڑا ہوا ہے جب تک ہم نوجوان نسل کو کتب بینی کی طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنے مروجہ تعلیمی نصاب کی تشہیر کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کتب بینی کے سلسلے میں اس درجہ کام نہیں ہوا‘ کتب بینی‘ نصابی ضرورتوں کے تحت آگے بڑھتی ہے‘ شاعری‘ ناول اور افسانے نے کتب بینی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر آدمی افادیت پسند بن گیا ہے یعنی ہر آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ مجھے کس کام میں زیادہ فائدہ ہے۔ درسی کتب تو مجبوراً خریدی جارہی ہیں ادب کی کتاب کون پڑھ رہا ہے اس قوم کا انجام کیا ہوگا جو کہ ادب سے دور ہوتی جارہی ہے اور کتب بینی کا شعبہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے کتب بینی کا رجحان کم نہیں کیا بلکہ ہم نے آئی ٹی کی معلومات کو علم سمجھ لیا ہے اور کتب بینی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم کتاب سے زیادہ انٹرنیٹ میں دلچسپی لے رہے ہیں جس کے باعث کتب بینی کا ادارہ تباہ ہورہا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ جامعہ کراچی میں اردو ڈپارٹمنٹ کے صدر نشین رہے اس دوران آپ نے کتنے لوگوں کو پی ایچ ڈی کروایا؟
ڈاکٹر شاداب: میری نگرانی میں پندرہ کے قریب اشخاص کے پی ایچ ڈی مکمل ہوچکے ہیں جب کہ آٹھ کی قریب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ قابل ذکر پی ایچ ڈی مقالات میں اردو تنقید‘ آغاز و ارتقا کا 2002‘ تحقیقی جائزہ ڈاکٹر ذکیہ رانی نے مکمل کیا آج کل وہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے منصب پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر زاہد حسین چغتائی‘ میگزین ایڈیٹر نوائے اسلام نے عزیز ملک کی شخصیت و فن پر تحقیقی مقالہ مکمل کیا اس میں غیر منقسم ہندوستان کا راولپنڈی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے جب کہ ممتاز مفتی کی عزیز ملک سے ذاتی تعلق کا احوال بھی نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر عظیم اقبال نے لاہور کے علمی و ادبی اداروں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اس سے قبل رضیہ نور محمد‘ صفیہ بانو اور یونس جاوید کے تحقیقی کاموں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ لاہور کے ادبی و علمی اداروں پر تحقیق تمام ہوچکی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عظیم اقبال نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ جس پر لاہوریوں کو فخر کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر اقبال عظیم ان دنوں ایم او کالج لاہور میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پاکستانی کلچر کے تناظر میں ’’احمد ندیم قاسمی کے افسانے‘‘ اس موضوع پر ڈاکٹر مشتاق نے تحقیقی مقالہ لکھا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان دنوں وہ سیالکوٹ گورنمنٹ کالج میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اسلامی اتحاد کی تحریکیں ڈاکٹر خالد امین کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ہے اس مقالے میں انہوں نے جمال الدین افغانی کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے اس مقالے کا محور خلافت تحریک تک ہے ڈاکٹر حامد کمال نے تقریباً 72 برس کی عمر میں اردو افسانے کی تشکیلی روایت مین اعظم کریوی کا حصہ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر حامد کامل ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔ تازہ ترین پی ایچ ڈی کا مقالہ اردو کا عروضی نظام‘ تنقید و مطالعہ اور عصری تقاضے میری نگرانی میں آفتاب مضطر نے مکمل کیا ہے۔ علم عروض میرا میدان ہے میں 1989ء میں ہی نثری نظم کے ضابطے اورقواعد دریافت کر چکا تھا بہ وجوہ میرا یہ کام اشاعت پذیر نہ ہوسکا۔ آفتاب مضطر ایم فل میں داخلے سے قبل ہی مجھ سے رابطے میں تھے اور وہ پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند تھے۔ ایم فل کرنے کے بعد میں نے خاکے سے لے کر موضوع تک ان کی معاونت کی‘ آفتاب مضطر ایک شاعر ہیں اور وہ اردو شاعری کی بحروں کی گردان سے واقف تھے اس مقالے کی بنیاد گردانوں سے ہی استوار ہوتی ہے۔ اردو زبان کا عروضی نظام اور عصری تقاضے ایسا کام ہے جو کہ اردو زبان کے مزاج کے عین مطابق آوازوں کی مناسبت لیے ہوئے ہے ایسا کوئی کام اگر کوئی کرسکتا تھا تو وہ ڈاکٹر گنان چند جین تھے‘ جنہوں نے اردو کا ’’اپنا عروض‘‘ نامی کتاب تحریر کی ہے وہ پنگل (ہندی عروض) کی بازیافت کے چکر میں ایک بڑے کام سے محروم رہے۔
جسارت سنڈے میگزین: ڈاکٹر صاحب یہ بتایئے کہ کیا اردو ادب روبہ زوال ہے؟
ڈاکٹر شاداب: محمد حسن عسکری کے زمانے سے تاحال یہ سوال زندہ ہے لیکن اس سوال کا جواب دینے والوں میں زندگی نہیں پائی جاتی‘ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ادب زندگی کا ترجمان ہے‘ جیسی معاشرتی زندگی ہوگی ویسا ہی ادب تخلیق ہوگا یعنی ویسی ہی ترجمانی ہوگی۔ ہم 21 ویں صدی کے اردو ادب کو میر‘ غالب اور اقبال کے تناظر میں دیکھنے لگ جائیں تو ہمیں اردو ادب روبہ زوال نہیں بلک مردہ نظر آئے گا جب کہ میری ناقص رائے میں ہر تخلیق اپنے عصری تناظر کی حامل ہوتی ہے‘ جہاں یکساں تعلیمی نظام نافذ نہیں ہوگا وہاں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوگا فی زمانہ شاعروں اور ادیبوں کی بڑائی مختلف گروہوں سے جڑ چکی ہے ایسا شاعر و ادیب جس پر سب اتفاق کرسکیں‘ وہ ناپید ہے۔ یہ قصہ فیض احمد فیض اور احمد فراز کے بعد کا ہے کیا شعرا و ادبا کو وہ ادب تخلیق کرنا چاہیے جس کا تقاضا ’’ناقد‘‘ کرے‘ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا شاعر وادیب روحِ عصر کی ترجمانی کررہے ہیں یا نہیں؟ کیا ان کی تحریروں کو ’’ابلاغ میسر‘‘ ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں کہ اگر ان کے جوابات تلاش نہیں کیے جاسکتے تو یہ کہنے سے جان نہیں چھوٹ سکتی کہ ادب روبہ زوال ہے۔ انگریزی کے زیر سایہ پلنے والے لوگ اردو کا رسم الخط بھی بھول چکے ہیں اور میڈیا پر ان کی اجارہ داری ہے‘ اردو اگر ان کی شہرت میں بنیادی متحرک نہ ہوتی تو یقیناًجو کچھ نظر آرہا ہے اس کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔ جس زبان کا پہلا رسالہ 1822ء میں شائع ہوا‘ آج اعلیٰ تعلیمی کمیشن میں پروموشن کی شرط اپنے منظور شدہ رسائل و جرائد کو بنیاد بناتی ہو‘ جہاں ’’کٹ اور پیسٹ‘‘ کا دور دورہ ہو‘ وہاں تخلیقی ادب کی موت واقع نہیں ہوگی تو پھر کیا ہو‘ اس فضا میں ادبا سے زیادہ ارباب اختیار‘ ادب کو اس سطح تک پہنچانے کے ذمے دار ہیں۔ اردو زبان پاکستان میں ابلاغ کی بنیاد ہے‘ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اردو کو سرکاری اداروں میں نافذ کرو لیکن توہینِ عدالت ہو رہی ہے‘ میں تو ابد کو مسئلہ حیات کہتا ہوں۔