صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6094 جس کا ترجمہ ہے، عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
وطن عزیز کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جھوٹ کو سیاست کا نام دیکر یہ دلیل دی جانے لگی ہے کہ سیاست میں سب جائز ہے۔ ایسی ریاست جس کی سیاست میں جھوٹ کو جائز قرار دیدیا جائے اور اسے روکنے کے بجائے فروغ دینے کے لیے مزید جھوٹ کا سہارا لیا جائے کا انجام کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اپنے مفادات کے لیے مسلسل جھوٹ بولنے والے سیاست دانوں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جب کہ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم بدعنوانی پر مبنی سرگرمیاں ایسے ہی جھوٹے اور مکار سیاست دانوں کے فعال رہنے کا باعث ہے۔ لوگ اب سیاست دانوں کی کسی بھی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں مگر اس کے باوجود سیاست دانوں کو موقع دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ جھوٹے سیاست دانوں کو مسلسل موقع دینا اور پھر یہ تصور کرنا کہ شاید اس بار سب کچھ درست ہوجائے، ملک ترقی کرنے لگے، مہنگائی کم ہو جائے اور آمدنی بڑھ جائے، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مساوی نہیں تو پھر کیا ہے۔
موجودہ صورت حال بھی خاصی دلچسپ ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں ایسے ایسے الزامات لگانے میں مصروف ہیں جنہیں ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔ جب کہ دوسری طرف حکومتی جماعت مسلم لیگ کے رہنما مبینہ طور پر اپنی ناجائز آمدنی کو جائز بتانے کے لیے ایسے بیانات پر مصر ہیں کہ ’’جھوٹ بھی شرماجائے‘‘۔
صرف ’’جھوٹ‘‘ نے پورے نظام کو جھکڑا ہوا ہے یا پھر جھوٹوں نے ملک کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے؟ ساتھ میں ہمیں عدالتی نظام کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ جو اپنی مرضی سے کسی بھی بات کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار رکھتا ہے لیکن جھوٹوں کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ نظام بھی ’’آلودہ‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ نظام سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کی بھی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں یہ بھی ایک اہم سوال بن چکا ہے۔
پاناما لیکس کے معاملے ہی کو لے لیں۔ منگل کو عدالت عظمیٰ میں اس کیس نے نئی کروٹ لی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے وکیل اکرم شیخ نے قطر کے شہزادے حمد بن جاسم بن جبر الثانی کا خط عدالت کے روبرو پیش کیا۔ جس میں قطرکے شہزادے نے کہا کہ کاروباری شراکت داری سے حاصل ہونے والے منافع سے لندن میں فلیٹس خریدے جو 2006 میں حسین نواز کے نام کیے۔ اس خط میں قطرکے شہزادے نے یہ بات واضح کی کہ ان کے والد اور میاں محمد شریف کے دیرینہ تعلقات تھے جنہوں نے 1980میں الثانی فیملی کے ساتھ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں شرکت داری کی خواہش ظاہر کی۔ میاں شریف نے قطر میں اپنی جائداد کی فروخت کے بعد ایک کروڑ 20لاکھ درہم ڈالے۔ ان شیئرز سے لندن میں چار فلیٹس آف شور کمپنیوں سے خریدے۔ میاں شریف نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ ان کے اثاثوں کو ان کے پوتے حسین نواز کی ملکیت میں دیدیا جائے جس پر دونوں کاروباری خاندانوں کے درمیان معاملات طے پائے جس کے تحت 2006 میں یہ فلیٹس حسین نواز کے نام منتقل کردیے گئے۔ اس پر پنچ کے رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے تو پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ یہ فلیٹس جدہ اسٹیل مل فروخت کرکے خریدے گئے تھے۔ جس پر وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کا وکیل ہوں، اس بارے میں وزیراعظم کے وکیل ہی جواب دیں گے۔ منگل کو عدالت عظمیٰ کی پاناما لیکس پر ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے یہ بات واضح کردی کہ عدالت عظمیٰ تفتیشی ادارہ نہیں ہے۔ ہم صرف لندن فلیٹس پر فوکس کریں گے۔ اگر نیب کے چیئرمین خود ساختہ جلا وطن ہوکر چین چلے گئے تو ہم کیا کریں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کی چھ سو زاید دستاویزات کا نہ سر ہے نہ پیر، اخباری تراشے ثبوت نہیں ہوتے۔ سماعت کے دوران شیخ رشید کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بطور پیشہ سیاست دان کے بجائے وکالت اختیار کرتے تو زیادہ بہتر وکیل ہوتے۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہزاروں جھوٹ بولتے ہیں مگر ایک سچ کا اعتراف کرکے معاملات کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ پاناما لیکس پر سماعت اگرچہ 17 نومبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔ اس ایشو پر جس قدر شور شرابہ ہوا اور جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اتنی ہی خاموشی سے یہ ایشو دم توڑ دے گا۔ ملک کی دولت لوٹ کر باہر لے جانے والے بھی ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ یہ خدشات اس لیے بھی پیدا ہوئے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے وکیل کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’ان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی میں ملوث تمام افراد کے خلاف انکوائری کی جائے، انسان ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف سے 650 اور دوسری جانب سے 1600 دستاویزات جمع کرائی گئیں اگر ایک ایک دستاویزات کا جائزہ لین تو یہ کبھی ختم نہیں ہوں گی آخر ہم انسان ہیں کمپیوٹر تو نہیں‘‘ اعلیٰ عدالت کے ان ریمارکس پر کون کیا کہہ سکتا ہے۔
عدالت کا یہ کہنا درست ہے کہ تمام مقدموں کی تحقیقات نہیں کی جاسکتی کیوں کہ ملک کی 67سالہ تاریخ میں صرف شروع کے چند سال بعد تو یہاں کرپشن کا آغاز ہوگیا تھا۔ کسی نے ایسی کرپشن کی کہ ملک ہی دولخت ہوگیا۔ کوئی اس قدر لوٹ مار کرتا رہا ہے کہ ایسا لگتا تھا کی ان کی زندگیوں کا مقصد ہی لوٹ مار ہے۔ آج پورا معاشرے کرپٹ ہوچکا ہے تو اس کی وجہ بنیادی وجہ وہی لوگ بنتے رہے جنہیں کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں کے باوجود کسی بھی طرح متعلقہ اداروں سے ’’کلین چٹ‘‘ ملتی رہی یا انہیں کھلی چھوٹ دی جاتی رہی، کبھی مصالحت کے نام پر تو کبھی این آر او کے نام پر۔۔۔ اگر سیاست دانوں کی تمام دولت کو سوئس بینکوں سے واپس منگوا لیا جائے تو یہ ملک اور قوم ترقی کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر مایوسی اور بے بسی کی باتوں کا سلسلہ عروج پکڑ گیا تو نہ جانے اس ملک اور قوم کا کیا ہوگا؟
آج قوم کو عدلیہ اور فوج سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ ان امیدوں کے باعث لوگ پاکستان کو ترقی کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ضروت اس بات کی ہے کہ ادارے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں اور بلاتا تاخیر کریں اور اگر نہیں کرسکتے تو کم از کم مایوسی کا اظہار کرکے قوم کو مزید پریشان تو مت کریں۔ قوم ہماری عدالتوں سے امید رکھتی ہے کہ وہ کم ازکم جھوٹوں کو قانون اور آئین کے تحت پارلیمانی اور عوامی عہدوں کے لیے نااہل تو قراردے سکتی ہے!۔