کیسے کیسے مواقعے گنوا دئے ہم نے

186

میں اس زمانہ میں دلی میں تھا، جب مارچ 1965میں رن آف کچھ میں لڑائی ہو رہی تھی۔ دلی میں اس قدر شکست خوردگی چھائی ہوئی تھی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کی فوج نے ہندوستان کی پوری ایک بریگیڈ کو پسپا کر کے بیار بٹ پر قبضہ کر لیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی، لوک سبھا میں گریہ کناں تھے کہ سن باسٹھ میں تو چین سے ہار کے لیے ہمالہ کی بلندی کو دوش دیا تھا، یہاں رن میں شکست کے لیے کیا دلدل کو دوش دیں گے؟ عجب عالم تھا، پریس انفارمیشن بیورو میں وزارت دفاع کی طرف سے بریفینگ ہورہی تھی۔ جس میں انتہائی اہم فوجی امور کے بارے میں ہندوستانی صحافیوں کو بتایا جا رہا تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ نہایت رازدارانہ بریفینگ ہے۔ میں ’’دشمن ملک‘‘ کا صحافی تھا، پاکستان کی اتنی ہیبت طاری تھی کہ جب میں بریفینگ روم میں گیا تو کسی نے مجھے نہیں ٹوکا۔ پھر جب میں نے چبھتے ہوئے سوالات کیے کہ ہندوستانی فوج کتنے میل پیچھے پسپا ہوئی ہے اور اب اس کی کیا پوزیشن ہے، تو کسی نے مجھے نہیں روکا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک فاتح ملک کا صحافی ہزیمت اٹھانے والوں سے سوال کر رہا ہوں۔
بہرحال تین مہینے کی لڑائی کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن کی کوششوں سے جنگ بندی عمل میں آئی اور رن آف کچھ کے متنازع علاقوں کے ملکیت کے تعین کے لیے ایک بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
رن آف کچھ میں فوجی جیت کے بعد ثالثی کے لیے ٹربیونل کا قیام، پاکستان کے لیے ایک سفارتی کامیابی تھی، جس کی بنیاد پر کشمیر کا تنازع بھی ثالثی کے ذریعے طے کرنے کی راہ نکالی جاسکتی تھی۔ لیکن پاکستان میں بعض طالع آزما قوتیں، رن کی اس جیت پر ایسی سرشار ہوئیں کہ وہ اس خوش فہمی کے سمندر میں غرق ہو گئیں کہ ہندوستان پر فوجی جیت مشکل نہیں۔ اسی خوش فہمی کی بنیاد پر، وادیِ کشمیر میں کسی منصوبہ بندی اور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر، آپریشن جبرالٹر کا جوا کھیلا گیا جو بری طرح سے ناکام رہا۔ نتیجہ اس کا 1965کی تباہ کن جنگ کی صورت میں نکلا۔ جس کے مہلک نتائج کا سلسلہ ملک کے دو لخت ہونے پر تمام ہوا۔
فروری 1968 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مقرر کردہ ٹریبونل نے رن آف کچھ کا دس فی صد حصہ پاکستان کے حوالہ کرنے کا فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ دونوں ملکوں نے بخوشی قبول کیا۔ لیکن پاکستان ایک اچھے موقعے سے محروم ہوگیا۔
پھر 1962میں ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے دوران پاکستان کو ایک سنہری موقع ملا تھا۔ امریکا اور برطانیہ کو سخت خطرہ تھا کہ پاکستان چین سے دوستی کی بنیاد پر چین کا ساتھ دے گا اور اس موقع پر ہندوستان کی سرحد پر ایسا سخت فوجی دباو رکھے گا کہ ہندوستان کی فوج، نیفا۔ شمال مشرقی سرحد اور لداخ کے محاذوں پر چین کی فوج کے سامنے ڈھیر ہو جائے گی۔ اسی خطرے کے پیش نظر، صدر کینیڈی نے اپنے خاص مشیر ایورل ہیری مین کے ساتھ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈنکن سینڈز کو فوی طور پر دلی بھیجا تاکہ پنڈت نہرو کو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت شروع کرنے کے وعدے پر آمادہ کیا جائے، جس کے عوض صدر ایوب خان سے چین کی عملی حمایت نہ کرنے کا پیمان لیا جاسکے۔ امریکا اور برطانیہ کے یہ دونوں اعلیٰ سفارت کار راتوں رات دلی سے اسلام آباد پہنچے اور صدر ایوب خان سے ملاقات کی۔ صدر ایوب خان پر امریکا اور برطانیہ کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ انہوں نے بلا چون و چرا ہندوستان کی سرحد سے پاکستانی فوج پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ تاکہ ہندوستان پنجاب اور بنگال سے بلا خطر اپنی فوجیں نکال کر نیفا اور لداخ کے محاذوں پر بھیج سکے، بلاشبہ نہرو نے کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کا وعدہ پورا کیا اور 1963 میں بھٹو، سورن سنگھ طویل مذاکرات ہوئے، لیکن یہ سراسر ناکام رہے، ویسے بھی ان مذاکرات کی کامیابی کی کسی کو توقع نہیں تھی۔
اس زمانہ میں چین کے ایک ممتاز صحافی دلی میں تعینات تھے۔ ان کی فوجی امور میں مہارت مانی ہوئی تھی کیوں کہ یہ ماو زی تنگ کی قیادت میں لانگ مارچ میں حصہ لے چکے تھے اور چو این لائی کے دست راست رہ چکے تھے۔ ان سے جب صدر ایوب خان کے اس اقدام پر بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایک اہم موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تھی۔ وہ کہنے لگے کہ اپنے مخالف کو زیر کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کو ہندوستان کے خلاف جنگ میں، پاکستان کی فوجی مدد کی قطعی ضرورت نہیں تھی لیکن پاکستان اس جنگ سے بہت فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت پنجاب، فوج سے بالکل خالی ہے، حتی کہ پولیس کو بھی لڑنے کے لیے برف زدہ نیفا بھیجا گیا ہے۔ ادھر بنگال بھی فوج سے خالی ہے۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ صرف ڈندوں سے لیس پاکستانی عوام، فوج کی پشت پناہی کے ساتھ، پنجاب کے ایک بڑے علاقے میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر سکتے ہیں اور کشمیر میں بھی آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں اور جنگ کے اختتام تک ان علاقوں پر کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جنگ کے بعد، ان علاقوں سے انخلا کے عوض، ہندوستان کو کشمیر کے مسئلے کا پاکستان کے موقف کے مطابق حل کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔
میں جب بھی چینی صحافی کی یہ باتیں یاد کرتا ہوں تو یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتاکہ پاکستان نے ایک نہایت انمول موقع گنوا دیا۔
ویسے تو پاکستان نے اکتوبر 1947 کو وہ موقع گنوا دیا تھا جب قبائلی لشکر، کشمیر کو راجہ ہری سنگھ کے راج سے آزاد کرانے کے لیے وادی کشمیر میں داخل ہوا تھا اور سری نگر کے ہوائی اڈہ کے قریب پہنچ گیا تھا،
بقیہ صفحہ 9نمبر1
کیسے کیسے مواقعے گنوا دئے ہم نے!
لیکن اس وقت لشکر کے سپاہیوں نے لوٹ مار شروع کردی، جس کی وجہ سے اتنی دیر ہوگئی کہ سری نگر ہوائی اڈہ پر قبضہ نہ ہوسکا۔ اس دوران ہری سنگھ نے ہندوستان میں انضمام کی دستاویز پر دستخط کر کے ہندوستان کی فوجی مدد طلب کر لی۔ سری نگر کا ہوائی اڈہ خالی تھا جس پر ہندوستان کی فضایہ کے طیاروں میں ہندوستانی فوج سری نگر پہنچ گئی اور جوابی کارروائی شروع کردی۔ اگر لشکر ہندوستانی فوج کے سری نگر اترنے سے پہلے، ہوائی اڈپر قبضہ کر لیتا تو آج بر صغیر کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔
پھر حال میں پاکستان کو ایک اہم موقع ملا تھا جب اس سال مارچ کے اوائل میں بلوچستان میں چمن کی سرحد پر، ہندوستان کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے ایک جاسوس افسر کلبھوشن یادو کو جاسوسی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی تخریب کاری میں مدد اور اعانت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور جس نے اپنے تفصیلی ویڈیو میں، بلوچستان میں ہندوستان کی تخریبی کارروائیوں کے بارے میں اقبالی بیان دیا تھا، جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں، بڑا اچھا موقع تھا کہ پاکستان میں ہندوستان کی تخریبی مداخلت کے ثبوت کے طور پر کلبھوشن کا اقبالی بیان پوری عالمی برادری کے سامنے پیش کیا جا سکتا تھا۔ لیکن نہ جانے کس مصلحت کے تحت، جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب میں اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ اس پر بھی بہت سے لوگوں کو تعجب ہے کہ نو مہینے گزرنے کے بعد بھی ابھی تک کلبھوشن یادو کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ پاکستان نے ہندوستان کے عزائم کو بے نقاب کرنے کا ایک زریں موقع گنو ا دیا ہے۔ کیسے کیسے مواقعے گنوا دیے ہم نے ؟ بڑی طویل فہرست ہے ان کی۔