کیا ہندوستان کا بلوچستان محاذ بکھر رہا ہے؟

195

اس سال جون میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے Not War ,Not Peace کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھی، جو امریکا کے کارنیگی انڈاومنٹ کے نائب صدر جارج پرکووچ اور اسی ادارہ کے ٹو بی ڈاٹسن نے مرتب کی ہے۔ جارج پرکووچ جنوبی ایشیاء میں جوہری حکمت عملی کے امور کے ماہر ہیں اور ٹوبی ڈاٹسن بھی جوہری پالیسی کے پروگرام کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ہندوستان کو سرحد پار سے ممبئی کے 1993 حملے اور 2001 میں پارلیمنٹ پر حملے ایسے جو خطرات ہیں ان کے سدباب کے لیے ہندوستان، سفارتی، زمینی حملے، فضائی طاقت کے استعمال، خفیہ آپریشنز اور جوہری کارروائی میں سے کیا انتخاب کر سکتا ہے۔
Not War , Not Peace میں کہا گیا ہے کہ جوہری دور میں جس میں ہم رہ رہے ہیں، جہاں، فوجی جوابی حملہ ایسی تباہی مچا سکتا ہے، جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لہٰذا کھلم کھلا جنگ، واضح طور پر کوئی راہ نہیں ہے۔ کتاب مرتب کرنے والے ان دو ماہروں نے پہلی بار، انُ پر تشدد اور عدم تشدد کے راستوں کے بارے میں جامع تجزیہ پیش کیا ہے جو ہندوستان کے لیے کھلے ہوئے ہیں جن کے ذریعے، وہ پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گرد کارروائی سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر سکتا ہے۔ اس راہ میں جو چیلنج ہیں، ان کا جائزہ لینے اور پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گرد کارروائی سے روکنے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے، ان ماہرین نے، ہندوستان اور پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ حکام سے مفصل انٹرویو کیے تھے۔
اس کتاب میں پورا ایک باب خفیہ آپریشنوں کے بارے میں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لکھا ہے کہ ایک امریکی اسکالر Christine Fair نے انہیں بتایا کہ 2009میں انہوں نے زاہدان، ایران میں ہندوستانی مشن کا دورہ کیا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچیں تھیں کہ یہ مشن، پاکستان کے خلاف، سرحد پر خفیہ کارروائی کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ کرسٹین فیر کا کہنا تھا کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس مشن کا اصل کام ویزا جاری کرنا نہیں تھا۔ یہی نہیں، ہندوستان، مزار شریف، افغانستان میں اپنے مشن سے خفیہ آپریشنز کر رہا تھا، اور ممکن ہے کہ سرحد پر جلال آباد اور قندھار میں ہندوستان نے اپنے جو قونصل خانے دوبارہ کھولے ہیں وہ بھی خفیہ آپریشنوں میں مصروف ہیں۔
کرسٹین فیر کا کہنا تھا کہ ہندوستانی حکام نے انہیں نجی طور پر بتایا کہ وہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر رقومات بھیج رہے ہیں۔ کرسٹین فیر نے بتایا کہ اس کا امکان ہے کہ ہندوستان نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے بعض رہنماوں کو فنڈ فراہم کیے ہیں۔
Not War, Not Peace میں کرسٹین فیر کے اس انکشاف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر، اجیت دووال نے خفیہ آپریشن اور تخریب کاری کی راہ اختیار کرنے کے لیے ’’دفاعی جارحیت‘‘ کی جو حکمت عملی پیش کی تھی اس پر ہندوستان پوری طرح سے عمل کر رہا ہے۔ اجیت دووال نے 21فروری 2014 میں ساستر یونیورسٹی میں نانی پالکی والا میموریل لیکچر میں کہا تھا کہ ’’ہم سے کئی گنا زیادہ پاکستان، حملوں کی زد میں ہے۔ ایک بار پاکستان کو یہ علم ہوگا کہ ہندوستان نے اپنا دفاعی انداز بدل کر جارحانہ دفاع کا انداز اختیار کیا ہے تو اسے احساس ہوگا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘‘ اجیت دووال کا کہناتھا کہ ’’آپ نے اگر ممبئی ایسا حملہ کیا تو آپ کو بلوچستان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔‘‘ اجیت دووال نے یہ لکچر، قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر فائز ہونے سے تین ماہ پہلے دیا تھا۔
نریندر مودی نے 12اگست 2016 کو، اجیت دووال کے مشورے پر بلوچستان کا محاذ کھولنے کا اعلان کیا۔ مودی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بلوچستان اور پاکستان کے ’’مقبوضہ‘‘ کشمیر کے عوام پر مظالم کا جواب دینا ہوگا۔ پھر 15اگست کو لال قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر انہوں نے گلگت اور بلتستان کو بھی بلوچستان اور آزاد کشمیر کے ساتھ شامل کر دیا۔
بلوچستان کا محاذ کھولنے کے اعلان سے پہلے ہی بلوچستان کے علیحدگی پسند رہنما، نئی دلی پہنچ گئے تھے اور ہندوستان کی حکومت کی مہمان داری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان رہنماؤں کا تعلق، فری بلوچستان موومنٹ سے ہے۔ ان میں سے ایک رہنما بلاچ پرولی بلوچ کئی سال سے دلی میں مقیم تھے۔ 22 ستمبر کو ہندوستان کی حکومت کو بلوچ ری پبلیکن پارٹی کے بانی براھم داغ بگٹی کی سیاسی پناہ کی درخواست ملی۔ تین روز پہلے ان کی یہ درخواست، جنیوا میں ہندوستان کے قونصل خانہ میں پیش کی گئی تھی۔
اس دوران، کابل میں مقیم، نائلہ قادری بلوچ، دلی آن دھمکیں اور آزاد بلوچستان کا نعرہ لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دلی میں بلوچستان کی جلا وطن حکومت کے قیام کے لیے آئی ہیں۔ نائلہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ یہ جلا وطن حکومت 40ملین بلوچوں کی نمائندہ ہوگی۔ نائلہ بلوچ کا یہ بیان، ہندوستان کے لیے پریشانی کا باعث تھا کہ ہندوستان، ایران میں چاہ بہار کی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔ یہ علاقہ بلوچ صوبہ سیستان کا علاقہ ہے جس پر ایران نے قبضہ کیا ہے۔ لیکن نائلہ قادری بلوچ کی پتنگ اڑنے سے پہلے ہی کٹ گئی جب، براھم داغ بگٹی نے اعلان کیا کہ نائلہ، بلوچ عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔ بگٹی کا کہنا تھا کہ جلا وطن حکومت کا قیام، قومی مسئلہ ہے اور قومی مسئلے کے بارے میں قوم کے اتفاق رائے کے بغیر اعلان نہیں کیا جاسکتا۔ ادِھر لندن میں فری بلوچستان موومنٹ نے ایک اور محاذ کھول دیا اور اس نے اعلان کیا کہ وہ بلوچستان میں چین کی موجودگی کے خلاف ہے۔ اس دوران برھم داغ بگٹی نے واشنگٹن میں کہا کہ وہ پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’ہم عملی لوگ ہیں اور پاکستان سے بات چیت کریں گے۔‘‘ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی باہمی چپقلش اور علیحدگی پسند رہنماؤں کے متضاد بیانات کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں کے ان بیانات سے ایک طرف چین اور دوسری طرف ایران کی ناراضی کہیں مول نہ لینی پڑے۔ اس صورت حال میں ہندوستان نے فی الحال بلوچستان کے محاذ پر پسپائی مناسب سمجھی لیکن ابھی یہ محاذ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔