افریقہ کا صحرائی قبیلہ توراگ قبول اسلام کے بعد اپنی روایات حتیٰ کہ زبان کوبھی ترک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ بات برطانوی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق اس قبیلہ کی روایات میں عورت کو نہ صرف خاندان کا سربراہ تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ وہ اونٹوں کے سوا تمام جائیداد کی مالک بھی ہوتی ہے۔ قبیلہ میں عورت کو نہ صرف طلاق کے ذریعہ علیحدگی کا حق حاصل ہے بلکہ طلاق کے بعد جوڑے کی تمام جائیداد بھی اس کے حصہ میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی شادی شدہ جوڑے کی طلاق کی صورت میں عورت کے خاندان والے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔
توراگ قبیلہ کی روایات کے مطابق عورت کوئی پردہ نہیں کرتی لیکن مردوں کےلئے بلوغت کے بعد پردہ لازمی ہے۔ خاندانی نصب کا سلسلہ مردوں کی بجائے خواتین کے ذریعہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ رقص و موسیقی کو قبیلائی روایات میں اہم مقام حاصل ہے تاہم قبیلہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنی قدیم زبان تماشق ترک کر کے عربی کو اپنا رہے ہیں جو قرآن کی زبان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ رقص وموسیقی جیسی روایات کوبھی ترک کررہے ہیں ، وہ زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی اقدار پرعمل پیرا ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔