شام میں مظالم کا مکمل ڈیٹا بیس تیار

223

جرمن دارالحکومت برلن کے دو نوجوانوں نے شام میں پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران ہوئے مظالم کا ایک نیا ڈیٹا بیس تیار کیا ہے، جس میں ساری دستیاب ویڈیو فوٹیج کو ایک ہی تکنیکی معیار میں ڈھال کر پیش کر دیا گیا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں کمپیوٹر ہیکرز کی ’کے اَوس کمپیوٹر کلب‘ نامی سالانہ کانگریس چار روز تک جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اپنی نوعیت کے اس تینتیس ویں اس اجتماع میں بارہ ہزار افراد شریک ہوئے اور اس دوران ڈیٹا کے تحفظ، انٹرنیٹ سکیورٹی اور جعلی خبروں کے رجحان سمیت مختلف موضوعات زیرِ بحث آئے۔

اسی اجتماع کے دوران برلن شہر کے دو نوجوانوں ھادی الخطیب اور جیف ڈوئچ نے اپنے اپنے گھروں پر تین ہزار یورو کی فنڈنگ کی مدد سے شامی جنگ میں ہوئے مظالم کے حوالے سے تیار کردہ اپنا نیا ڈیٹا بیس متعارف کروایا۔

اس ڈیٹا بیس کو اب اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن راٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں سے لے کر پوری دنیا کے وکلاء اور سیاسی کارکن تک استعمال کر رہے ہیں۔اس ڈیٹا بیس کا نام ’دا سیریئن آرکائیو‘ رکھا گیا ہے اور اسے اسی نام کی ویب سائٹ (syrianarchive.org) پر جا کر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں ساڑھے پانچ سال سے جاری جنگ کے دوران ہوئے دو ہزار دو سو غیر قانونی واقعات کی تفصیلات کو باقاعدہ شہادتوں کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے اور اس کے لیے دنیا بھر میں موجود رضاکاروں کے ساتھ ساتھ شام میں موجود سیاسی کارکنوں کی بھی مدد لی گئی، جنہوں نے ان واقعات کی تصدیق کی۔

اس میں یو ٹیوب اور دیگر پلیٹ فارموں پر اَپ لوڈ کی گئی ویڈیو فوٹیج بھی شامل ہےجس میں مختلف فریقوں کی جانب سے ہسپتالوں پر فضائی حملوں، کلورین گیس سے کیے گئے حملوں اور کلسٹر بم حملوں کے فوراً بعد کے انتہائی ہولناک مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی فوٹیج کس مقام پر کب ریکارڈ کی گئی اور وہ آئی کس ذریعے سے تھی۔

اِس آرکائیو کو مزید فلٹر کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے غیر قانونی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں، کیسے لوگوں کو گھر بدر کیا جا رہا ہے، لْوٹ مار کی جا رہی ہے، انسانوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یرغمال بنایا جا رہا ہے اور قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔’روسی حملوں میں ہونے والی شہری ہلاکتوں‘ کے لیے ایک الگ سے خصوصی فلٹر لگایا گیا ہے۔